نظم

مسدود راستے : محمدجاوید انور


محمدجاوید انور
اگر میں بوجھ بن جاوں
اگر تم لوٹنا چاہو
اشارے سے بتادینا
——-
یہ میں نے ہی کہا تھا
اور گھڑی وہ آن پہنچی ہے
مگر اب یہ کھلا ہے
لوٹنا آسان نہیں اتنا
اگرچہ لوٹنا تو ہے
مگر یہ جان لیوا ہے
اگرچہ بھولنا ہوگا
مگر یہ روح فرسا ہے
مگر سچ آن پہنچا ہے
حقیقت سامنے ہے بس
مگر ہونی تو ہوگی ہی
مگر سورج تو نکلے گا
اگرچہ جان جائے گی
اگرچہ روح تڑپے گی
مگر سب راستے مسدود ہیں
اور لوٹنا ہوگا
مگر جاناں
وہ میری نظم جو محفوظ رکھی ہے
نکالو اور اُسے دیکھو
—–تو آخر میں یہ لکھا تھا
کبھی جو یاد آوں تو —-
میں اپنی آخری خواہش بدلنے کا مکلّف ہوں
تمہیں آذاد کرتا ہوں
اور اس کا حق بھی دیتا ہوں
مجھے یکسر بھلا دینا
کبھی تم یاد مت کرنا
مجھے یکسر بھلا دینا !!

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی