نظم

محبت برد : ناٸلہ خاور


نائلہ خاور 
محبت برد ہونے سے
بہت ڈرتا رہا گو دل
مگر جو ہو کے رہنا ہو
اسی کو ٹالنا مشکل
فشارِ جاں فشانی میں
کہاں تو تھا کہاں میں تھی
حیاتِ لا مکانی میں
جہاں تو تھا وہاں میں تھی
نظر تھی مل گئی ہو گی
بیک ساعت دلوں میں اک
کلی سی کھل گئی ہو گی
مگر کیا ہے کہ قسمت پہ
کسی کا بس نہیں چلتا
وہی دوری پہ ہوتا ہے
جسے ہونا نہیں ہوتا
کہ جیسےپاٹ دریا کے
ہمیشہ ساتھ رہتے ہیں
کبھی پر مل نہیں پاتے
مگر حد ہےوفا کی کہ
سدا اک ساتھ جیتے ہیں
سدا اک ساتھ مرتے ہیں
فنا جب آن پہنچے تو
کبھی نہ ساتھ چھوڑیں گے
فنا کے گھاٹ جانے کو
وہاں بھی ساتھ ہو لیں گے
محبت برد ہونے سے
بہت ڈرتا رہا یہ دل۔۔۔۔۔

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی