نظم

اک تنہا ویک اینڈ : حامد یزدانی

حامدیزدانی


حامد یزدانی
سنٹرل پارک میں، آوارہ سا
جانے! کون صدی کا چاند
ایمپائر اسٹیٹ سے ڈھلتی
زینہ زینہ دھند کی سرگوشی
گھورتی سڑکوں سے چھپتی
بروکلین میں آنکھیں کھولتی ہے
چمنیاں تاریکی جنتی ہیں
یا پھر بادل !
آزادی کے بُت کو شرماتی
قبرستان کی ترچھی روشنی
تہ در تہ یہ سیدھی قبریں
بوڑھے دنوں کی جڑواں اداسی
بالکنی سے جھانکتی ہے
ففٹی تھرڈ اسٹریٹ
چمڑے کے صوفے کے پیچھے
پودے ربڑ کے، ایک نمائش
سامنے چیری وُڈ کی ٹیبل
میڈ اِن اٹلی ! ایک تصنع، اک مجبوری
خوش ہونے کی خواہش
چھپن انچ کی ایل سی ڈی سکرین پہ رقصاں
بونی بونی گوری خبریں
ٹائمز کے سرورق سے دُور ۔۔۔
وال اسٹریٹ کے کھیل سے یک سربے پروا
اُجڑی سی پٹڑی پر بیٹھا
اُجڑا سا ویک اینڈ
اک تنہا ویک اینڈ
بشکریہ ۔۔۔ کارواں: جناب نویدصادق

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی