نظم

ارتکاز : انیس احمد


تمام مومی حروف ، سنگی مجسموں میں بدل گئے ہیں
عجیب موسم کہ جگنوئوں نے بھی
آتشی پیرہن کو اپنے بدن کا نغمہ قرار دے کر
حیات افروز ساعتوں کو
سپرد آتش کیا ہے ایسے
جو خاک_ انکار ، حالت_ انتشار میں تھی
اسے بھی اثبات کو نفی میں بدلنے کا اختیار تفویض کر دیا ہے
جو میں نے صدیوں کی التجائوں کے بعد حاصل کیا تھا
وہ ارتکاز تحلیل ہو گیا ہے
مرا بدن جو زمین بھی آسمان بھی تھا
نہ جانے کس نے ہے صور پھونکا
مرا بدن جو زمین بھی آسمان بھی تھا
خلا میں روئی کے گالے بن کر بکھر گیا ہے
زمین پر کاروبارحیات ویسے ہی چل رہا ہے
مجھے بہت فکر ہے کہ میرے تمام اعمال ناگ بن کر انیس احمد
مری اناؤں کو ڈس رہے ہیں

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی