یہ سب الفاظ،
سارے رنگ،ساری خوشبوئیں
پہلے بھی ایسی تھیں !
نہیں !
ایسا نہیں تھا
چارسو پھیلی ہوئی اک خامشی تھی
ہر اک شے پر عجب بے رنگ سی چادر تنی تھی
ہوا چلتی تھی
لیکن خوشبوؤں کے بوجھ سے آزاد تھی
بہت پہلے کا قصہ ہے
سنہری دھوپ سے پہلے
خنک سائے کے نیچے
برہنہ جسم کے پہلو سے
اک خوابیدہ خواہش نے
لبادہ اوڑھنے،
خوشبو لگانےِ،
گیت گانے اور رنگوں میں نہانے کی
ذرا سی بھول کی تھی
بس اسی دن سے
یہ سب الفاظ،
سارے رنگ، ساری خوشبوئیں
میرا اثاثہ ہیں
یوسف خالد