نظم

اثاثہ : یوسف خالد

یہ سب الفاظ،
سارے رنگ،ساری خوشبوئیں
پہلے بھی ایسی تھیں !
نہیں !
ایسا نہیں تھا
چارسو پھیلی ہوئی اک خامشی تھی
ہر اک شے پر عجب بے رنگ سی چادر تنی تھی
ہوا چلتی تھی
لیکن خوشبوؤں کے بوجھ سے آزاد تھی
بہت پہلے کا قصہ ہے
سنہری دھوپ سے پہلے
خنک سائے کے نیچے
برہنہ جسم کے پہلو سے
اک خوابیدہ خواہش نے
لبادہ اوڑھنے،
خوشبو لگانےِ،
گیت گانے اور رنگوں میں نہانے کی
ذرا سی بھول کی تھی
بس اسی دن سے
یہ سب الفاظ،
سارے رنگ، ساری خوشبوئیں
میرا اثاثہ ہیں
یوسف خالد

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی