’’ کاش ! چار بیٹوں کی بجائے میری دوبیٹیاں اور ہوتیں ‘‘
اس کی آنکھوں سے مسلسل آنسوجاری تھے لیکن وہ اپنے دوپٹے سے انھیں صاف کرتی ہوئی جھاڑو لگائے جارہی تھی ۔
میں نے آسیہ کوپہلے کبھی بھی اتناغم زدہ نہیں دیکھاتھا۔ کئی سالوں سے وہ میرے گھر میں کام کررہی تھی لیکن بڑے رکھ رکھاوکے ساتھ ۔ اس نے اپنے گھر کے معاملات بھی مجھے کبھی نہیں بتائے تھے اور نہ ہی مجھے کبھی پوچھنے کی ضرورت محسوس ہوئی ۔ وہ آتی کام کرتی اور شام کو اپنے گھر چلی جاتی ۔
آج اس کی اس حالت نے مجھے چونکا دیا ۔دور سے دیکھتے ہوئے میں نے اسے آواز دی کہ میرے لیے چائے بناو اور اپنے لیے بھی۔ اور سوچنے لگی کہ اسے آج آخر ہواکیا ہے۔
وہ چائے بنالائی تو میں نے اُسے کہا کہ اپنی چائے بھی ادھرہی لے آو ۔دونوں بیٹھ کر پیتے ہیں۔
وہ میرے سامنے قالین پر بیٹھ گئی ۔ میں نے غور سے دیکھا تو اس کی آنکھیں سوجھی ہوئی تھیں ۔
’’ کیا ہوہے آج ،اتنی پریشان کیوں ہو؟ ‘‘
بس اتناپوچھناتھاکہ وہ باقاعدہ ہچکیاں لیتے ہوئے پھوٹ پڑی ۔ تھوڑی دیربعد دلاسہ دینے پر بولی۔
باجی!
’’ میرے چاربیٹے اور دو بیٹیاں ہیں ۔ انھیں بڑاکرتے کرتے میں اور میرامیاں بوڑھے ہوگئے ۔
بیٹوں کو پڑھالکھا نہ پائے لیکن کام سکھادیا تاکہ اپنا پیٹ پال سکیں ۔۔۔۔۔۔ لیکن اب وہ کام پر نہیں جاتے ۔ کئی بار ان کے باپ نے انھیں سمجھایا لیکن وہ بے چارہ بھی کیا کرے۔ اب تو انھیں مارپیٹ بھی نہیں سکتا۔ اب وہ خود بیمار بھی تورہتاہے ، مزدوری کرتاہے باجی ۔ طبیعت بہتر ہو چلا جاتا ہے کام پر ۔۔۔۔ ورنہ گھرپڑا رہتاہے۔
دونوں بیٹیاں لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہیں ۔ انھی پیسوں سے توگھرکا خرچہ چلتا ہے۔ بڑی ہی اچھی ہیں دونوں ۔ کام سے واپس آکر گھربھی سنبھالتی ہیں اور ہماراخیال بھی رکھتی ہیں ۔
کچھ دنوں سےمیرے میاں کی طبیعت بالکل بھی اچھی نہیں اوراب تو دوا داروکے لیے بھی پیسے نہیں تھے ۔رات بڑا لڑکا سے مجھ سے پیسے مانگ رہا تھا شاید نشے کے لیے باجی!
اور اس سے چھوٹا اپنے باپ سے موبائل کا تقاضا کررہاتھا۔ باپ نے کہا کہ کام کروکچھ ۔۔۔ اورخرید لو ۔ تمھاری بہنوں کی تنخواہ سے گھر کا خرچہ چلے کہ تمھارے لیے موبائل فون آئے ۔
اس بات پر اس نے باپ پر ہاتھ اٹھا لیا باجی!
میں روتی ہوئی اس کا ہاتھ روک رہی تھی اور سوچ رہی تھی باجی کہ:
’’ کاش ! چار بیٹوں کی بجائے میری دوبیٹیاں اور ہوتیں ۔‘‘
اور ۔۔۔۔
اس وقت چائے کا کپ میرے ہاتھ سے گرتے گرتے بچا۔