کالم

ہمارے کام کی باتیں اور انجام کی باتیں : ڈاکٹراسد مصطفی

ڈاکٹراسدمصطفی
ڈاکٹراسد مصطفی
میں خدائے ذوالجلال کے سامنے دست بستہ ہوں۔میری گردن جھکی ہوئی ہے اورہاتھ اور زبان کانپ رہے ہیں۔ میں خود کو اس قابل نہیں پاتا کہ اس کی تعریف کر سکوں۔میرے پاس تو لفظ بھی نہیں ہیں۔میں ایک بندہ ء ناچیز بھلا تعریف کا حق کیسے ادا کر سکتا ہوں۔میرا مالک تو وہ ہے کہ دنیا جہان کے سب درخت قلمیں بن جائیں اورسب سمندر اوردریا روشنائی اور سب انسان اس کی تعریف لکھنا شروع کر دیں اور مخلوقات اس کی تعریف کرنا شروع کر دیں تو بھی حشر کا دن تو آ جائے گا مگر اس تعریف کی ابھی ابتدا ہی ہو رہی ہو گی۔سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جو خالق کون ومکاں ہے،حمد زیبا ہے، اسی خدائے بزرگ وبرتر کو۔سب اسی کے نام سے ابتدا پاتے ہیں اور اسی کے نام پر ان کی انتہا ہوتی ہے۔یہ ہم جو چلتے پھرتے ہیں،سوتے جاگتے ہیں،سو چتے ہیں،باتیں کرتے ہیں،محبت کرتے ہیں،غصہ کرتے ہیں،ہمیں خوشی ہوتی ہے اور غم بھی، یہ سب اسی کے طفیل ہے۔ہماری ساری ہنر وری اور قلم وری اسی خالق و مالک کی عطاکردہ ہے۔ہم تو اتنی بھی طاقت نہیں رکھتے کہ چند دن کھائے پئے بغیر ہشاش بشاش زندگی گزار سکیں۔ہماری سماعت محدود ہے،ہماری طاقت محدود ہے۔ہماری نظر محدود ہے۔ہمیں خوشی کے موقع پر رونا اچھا نہیں لگتا اور روتے ہوئے خوش ہونا ناممکن ہے۔ہمیں نیند آنے لگتی ہے توجاگنا محال ہو جاتا ہے اور سو جائیں تو نیند روح سے جدائی کی ایک صورت ہے جو موت سے انسان کی قربت کی عکاس ہے۔ ہم نہ تو زیادہ شور برداشت کر سکتے ہیں اور نہ مکمل اور طویل سکوت ممکن ہے۔ہمیں سردی میں گرم کپڑوں کی ضرورت ہوتی اورگرمی میں ٹھنڈے اور ہلکے۔ہم نے ضرب اور طاقت سے بہت بڑی بڑی اور طاقتور چیزیں تو بنا لی ہیں مگر خود ہلکی سی ضرب بھی برداشت نہیں کر سکتے۔ہم جو دن رات آواز سے بھی تیز رفتار جہازوں میں سفر کرتے ہیں خود چند بالشت بھی اڑنا نہیں جانتے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ خدا نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر بھی کمزور بنایا ہے،اس لیے کہ کہیں میں زعم میں نہ آجائے،کہیں گھمنڈ کرنا شروع نہ کر دے، کہیں چند روزہ طاقت اور اقتدار پر اتراتا نہ پھرے،کہیں دوسروں کو کمتر نہ سمجھے۔ہم میں سے کوئی چند روزہ اقتدار کے خمار میں مبتلا ہے تو کوئی اپنے معمولی سے اختیار پہ نازاں ہے۔کوئی اپنے محدود سے علم پر متکبرہے تو کوئی اپنے حسن و جوانی پر شاداں وفرحاں ہے۔ کتنی تلخ حقیقت ہے کہ یہ سارا حسن اوراختیار جس جس کو ملا ہے بہت محدود اور عارضی ملا ہے۔حضرت سلطان باہو صاحب ؒ نے ”میں“کو موضوع بناتے ہوئے لکھا ہے کہ”شیطان کو سجدہئ آدم سے صرف اس بات نے روکے رکھا کہ میں آدم سے اچھا ہوں کیونکہ وہ مٹی سے بنایا گیا ہے اور میں آگ سے۔پس یہ ”میں“دونوں جہان میں آدمی کو خراب کرتی ہے۔“حقیقی عزت اور طاقت صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔اللہ ہی تمام کائنات کا خالق اور مالک ہے۔زمین وآسمان کا مالک،مشرق ومغرب کا مالک،جن و انس کا مالک،جاندار وبے جان کا مالک صرف ایک خدا ہے۔یہ ساری کائنات اوراس کائنات کے ٹوٹتے بنتے کروڑوں ستارے اور بے انت پھیلتی کہکشائیں،زندگی،حرکت،حرارت، روشنی سب کچھ، اسی کے دم سے ہے۔ہرصبح مشرق سے ابھرتا ہوا سورج اوراس کی روشنی سے منور یہ جسم وجانِ ارض و سمااور پھر سرشام مغرب کے افق پر ڈوب جانے کی مجبوری،دن بھر چاند کابے رونق چہرہ اور پھرچاندنی رات میں بادلوں کی اوٹ سے جھانکنے اور کبھی چھپ جانے کی آنکھ مچولی،اپنے اپنے کناروں میں قید تا حدِنگاہ ٹھاٹھیں مارتے ہو ئے وسیع وعریض سمندر اورہزاروں میل کی مسافت طے کرتے ہوئے دریاؤں کی مجبوری،سلسلہ در سلسلہ پھیلتے ہوئے، بلند قامتی میں قید کوہسار اور ان میں بہتے جھرنوں کی مجبوری،صحرا کی نرم گرم ریت اور ریت پر سے سنسناتی ہوئی تیز ہوا کی مجبوری،زمین کی وسعت میں پھیلے ہوئے جنگل اور جنگلوں کے چرندوں،پرندوں اور درندوں کی مجبوری۔غرض سب مخلوقات،مجبور ہیں،خالق کون ومکاں کے سامنے ہاتھ باندھے اپنی مجبوری ومعذری کا اظہارواقرار کر رہی ہیں کیوں کہ یہ سب نظام کائنات اللہ کی ہی منشا اورقدرت کا نظام ہے۔
وابستہ سب ہیں نظمِ قضا و قدر کے ساتھ
لیل و نہار بھی روش روزگار بھی
سب ہیں اسی کے حکم سے دن ہو کہ رات ہو
شام خزاں اسی ہے صبح بہار بھی
اللہ کے بندے۔ ساری ساری رات، اپنے اللہ کی یاد میں کھڑے رہنے والے بندے۔نیکی میں سبقت کرنے اور برائی سے دور بھاگنے والے بندے،بھوکوں کو کھانا کھلانے اور پیاسوں کو پانی پلانے والے بندے۔ اللہ کی راہ میں نکلنے والے اور اپنی جان ومال قربان کر نے والے بندے۔علم کی مشعلیں جلا نے والے اورتاریکی و جہالت کی گپھاؤں کا شکار کرنے والے بندے، اس دنیا کا حقیقی حسن وہی ہیں اور اللہ نے ان کا مقام بہت بلند فرما یا ہے اور یہی ہیں ”دائیں طرف والے لوگ“ اور اپنے رب کی محبت میں آگے بڑھنے والے لوگ۔ قران مجید کی سورۃ واقعہ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:۔”اور تم تین قسم کے ہو جاؤ گے۔ سو دائیں جانب والے،دائیں جانب والوں کا کیا کہنا اور(دوسرے) بائیں جانب والے کیا(ہی برے حال میں ہوں گے) بائیں جانب والے اور سبقت لے جانے والے،یہ پیش قدمی کرنے والے ہوں گے۔یہی لوگ(اللہ کے مقرب ہوں گے‘‘ مگر وہ لوگ جو بائیں طرف والے ہوں گے، غرور ِعزو جاہ میں مبتلا، زمین پر اکڑ کر چلنے والے،بظاہرشرافت ونجابت کا لبادہ اوڑھے اندر سے غلاظت کا ڈھیر،رتاریکی کے پردے میں لوگوں کی آنکھوں سے اوجھل مگر خدا کی نظر وں کے سامنے،غلاظتیں اور گناہ سمیٹنے والے،حرص وہوس کے اندھے، مال ومتاع اوردولت وحشمت کے دیوانے،اقتدار وایوان کی چاہ میں بے ایمانی وحرص میں مبتلا،غریبوں،یتیموں کا حق چھین لینے والے،امن اور تعلیم کے دشمن،بے گناہوں کے قاتل۔ظلم پر ور وسنگ دل۔اے قبرو! آباد رہو کہ تم نے تمام سرکشوں کو اپنے حقیقی مقام سے آگاہ کیا ہے اور ظالمو!سن لو کہ تمہارا انجام بھی بہت جلد سامنے آنے والا ہے۔

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

کالم

ترقی یا پروموشن ۔۔۔۔ خوش قسمتی یا کچھ اور

  • جولائی 11, 2019
ترجمہ : حمیداللہ خٹک کون ہے جوزندگی میں ترقی نہ چاہتاہو؟ تقریباًہرفرد ترقی کی زینے پر چڑھنے کا خواب دیکھتا
کالم

کشمیرمیں انسانی حقوق کی پامالی

  • اگست 6, 2019
از : یوسف خالد کشمیر جل رہا ہے اور دنیا بے حسی کی تصویر بنی ہوئی ہے — دنیا کی