کالم

فراغت کے قیمتی لمحے : ڈاکٹر اسدمصطفے

کرونا وائرس سے پھیلا خوف دماغ پاش بھی ہے اورجاں گسال بھی مگر اس کی بدولت ہمیں تنہائی اور فراغت کے چند قیمتی لمحے بھی میسر آگئے ہیں جن سے بہت سا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کرونا سے پیدا ہونے والے خوف کے نتیجے میں فرق کسے پڑا ہے۔اللہ کا بنایا ہوا نظام کائنات اسی طرح چل رہا ہے۔ سورج نے رستہ بدلا ہے نہ چاند کی چاندنی کم ہوئی ہے ۔ستارے اسی آب وتاب سے چمک اور دمک رہے ہیں۔دریاؤں کی روانی بھی کم نہیں ہوئی۔نہ ہی پھولوں کی مہک میں فرق پڑا ہے۔آبشاروں کا ترنم بھی اسی طرح جاری ہے اور بادلوں کی رم جھم بھی۔باغوں میں کوئل بھی اسی طرح کوک رہی ہے اور بلبل اور چڑیوں کی چہچہاہٹ میں بھی کمی نہیں آئی ہاں اگر فرق پڑا ہے توحضرت انسان کی اس مصنوعی زندگی کو جس نے ساری فراغتوں کو مات دے دی تھی ۔اس کی مصروفیت بے انتہا بھی تھی اور بے ہنگم بھی ۔وہ سوچتا تھا کہ اگر وہ وقت پر دفتر نہ پہنچا تو پتہ نہیں کون سی قیامت ٹوٹ پڑے گی اور اگر اس نے اپنے سارے کام مکمل نہ کئے نہ پتہ نہیں کیا ہو جائے گا۔اس کے پاس ملنے ملانے کا وقت بھی نہیں تھا اور آج کئی دن ہوئے ہیں اسے کوئی ملنے بھی نہیں آیا۔پہلے اس کے دوستوں کے دن میں کئی فون آیا کرتے تھے اور اس کے موبائل فون کی گھنٹی بند ہی نہیں ہوتی تھی مگر اب تو جیسے فون بجنا بھول گیا ہے ۔وہ جس کے پاس اپنے بچوں کے لیے بھی وقت نہ تھا اب بچوں کے سوا اسے کوئی میسر ہی نہیں ہے ۔اپنے آپ کو دنیا کے لیے لازم وملزوم قرار دینے والا شخص بے کاری کا مجموعہ بن چکا ہے اور دنیا زبان حال سے چیخ چیخ کر پکار رہی ہے کہ مجھے تمہاری کوئی ضرورت نہیں ہے۔بڑے بڑے شاپنگ مال بند پڑے ہیں،بڑے بڑے ہوٹل بند ہیں،سڑکوں پر دوڑنے والی لگژریس سروسز بند ہیں،پلے ایراز بند ہیں،مساجد بند ہیں،فلم انڈسٹری بند ہے،سکول،کالجز اور یونیورسٹیاں بند ہیں،غرض اچھائی اور برائی کے سارے ادارے اور اڈے بند ہیں ۔زمین کی وسعتوں میں پھیلا ہوا آدمی ایک معمولی سے جرثومے کے ہاتھوں گھروں میں سکڑ کر،اپنی ذات تک محدود ہو گیا ہے۔انسان کی اس بے بسی پر ہنسنے کو بھی دل کرتا ہے اور رونے کو بھی۔مگر اس کا ایک مثبت پہلو بھی نکلتا ہے کہ اسے اپنے اندر جھانکنے کا موقع ملا ہے اپنے آپ سے بات چیت کا وقت ملا ہے۔یہ وقت اس کے لیے بہت غنیمت ہے۔کسی دانشور کا قول ہے کہ مصروف ہو جانے سے پہلے،فراغت کے لمحوں کو غنیمت جانو۔یہ فراغت کے لمحے لوٹ کرآنے والے نہیں ہیں۔مجھے یقین ہے بہت جلد کرونا وائرس کا قصہ پارینہ بن جائے گا۔دنیا کی رونقیں بحال ہو جائیں گی،انسان پہلے کی طرح تیزرفتاری دکھائے گا،وہ جنہیں مصیبت میں خدا یاد آیا ہے،ان کے خیالوں میں پھر سے دنیا آن بسے گی،دلوں کو کھینچنے والے فتنے پھر سے برسرِ پیکار ہوں گے۔بڑی طاقتیں اپنے دیرینہ عزائم اور مجبور ومقہور قوموں پر پھر سے ٹوٹ پڑیں گی۔سرمایہ دارانہ نظام جو وقتی طور پر مضمحل ہوا ہے دوبار ہ طاقت پکڑے گا اور دنیا اپنی اسی ڈگراورروش پر گامزن ہو جائے گی جس پر چند دن پہلے رواں دواں تھی،مگراس سے پہلے کہ آپ اس دنیا کے ساتھ پہلے کی طرح مصروف ہو جائیں،فراغت کے ان لمحوں کی مے کشید کر لیں۔کیونکہ ایسی شراب آپ پھر نہیں بنا سکیں گے۔اس عمل میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ جس طرح مصروفیت کے لمحےقیمتی سمجھے جاتے ہیں اسی طرح فراغت کے ان لمحات کی بھی قدر کریں۔گھر میں رہنے کی یہ قدغن أپ نے خود نہیں لگائی کرونا وائرس کے خوف اور خطرے کے سبب لگائی گئی ہے تو اس سے ہمارے دل میں ان طبقات کے لیے بھی احساس پیدا ہونا چاہیے جن کی روزی کے ممکنہ وسائل بند ہیں اور جو ہماری طرح گھروں میں بند ہیں۔انہیں کھانے پینے کے ساتھ ساتھ بہت سی ایسی چیزوں کی ضرورت ہے جنہیں ہم مہیا کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔یہ جزبہ اور خیال ہی ہماری بے چینی اور بوریت دور کردے گا۔سو ہمیں اس حوالے سے گھروں سے باہر نکلنے اور محروم طبقات تک پہنچنے کی ضرورت ہے۔اس کے ساتھ ساتھ یہ اپنا محاسبہ کرنے کا بھی بہترین وقت ہے۔کسی وقت بیٹھ کر سوچیے اور مسلسل سوچیے کہ ہم نے کتنے لوگوں کا دل دکھایا ۔آگے بڑھنے کے لیے کتنے لوگوں کو لتاڑا ہے۔کن کن کا حق کھایا اور کہاں سے کہاں پہنچ گئےمگرموت کے خوف نے ہمیں کیسے دیوار سے جا لگایا ہے۔موت پہلے بھی آنی ہے اور بعد میں بھی آئے گی۔یہ ایک اٹل حقیقت ہے مگر غالب کی طرح کرونا کے ہاتھوں مرنے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے جو ہر سال اپنا قطعہ تاریخ وفات لکھ چھوڑتے تھے اور ایک سال جب نہ مرے اور لوگوں نے وجہ پوچھی تو کہاکہ ہمیں وبائے عام میں مرنا منظور نہیں ہے۔کرونا وائرس اب تک ہزاروں انسانوں کی زندگیاں نگل چکا ہے اور اگر ہم اب تک اس موزی کے وار سے محفوظ ہیں تو ہمیں اپنے خالق و مالک سے شکر گزاری کا اظہار واقرار کرنا چاہیے۔یہ شکر گزاری کا احساس انفرادی طور پر بھی ہونا چاہیے اور اجتماعی طور پر بھی کیونکہ اللہ کی نعمتوں پر شکر گزار ہونا ہمیں اپنے رب سے نزدیک کر دیتا ہے۔کرونا کے ذریعے اللہ تعالٰی نے ہمیں اپنا شکرگزار بندہ بننے اور اس سے تعلق مضبوط کرنے کا موقع عطا کیا ہے۔اسی تناظر میں میری تازہ غزل کے چند اشعار پیش ہیں۔
شہر مردہ ہیں مگر عہدبشر زندہ ہے
سجدہ شکر ابھی دل کا نگر زندہ ہے
بادصرصر ہے کڑی دھوپ یہاں ہے لیکن
کھیت سرسبز ہیں ہر ایک شجرزندہ ہے
ایک جرثومے نے تاریخ بدل کے رکھ دی
اشک پتھر ہیں کہیں دیدہء تر زندہ ہے
اپنے سائے سے بھی ملتے ہوئے گھبراتا ہوں
مجھ میں پنہاں ہے کوئی خوف کہ ڈر زندہ ہے
دیر تک سوئے ہوئے لوگوں کے گھر میں آیا
موت کا خوف یہاں شام وسحر زندہ ہے
تخلیہ آج ضروری ہے تواس کی خاطر
اپنی خاطر تو اسد بار دگر زندہ ہے

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

کالم

ترقی یا پروموشن ۔۔۔۔ خوش قسمتی یا کچھ اور

  • جولائی 11, 2019
ترجمہ : حمیداللہ خٹک کون ہے جوزندگی میں ترقی نہ چاہتاہو؟ تقریباًہرفرد ترقی کی زینے پر چڑھنے کا خواب دیکھتا
کالم

کشمیرمیں انسانی حقوق کی پامالی

  • اگست 6, 2019
از : یوسف خالد کشمیر جل رہا ہے اور دنیا بے حسی کی تصویر بنی ہوئی ہے — دنیا کی