کالم

تو پھر ۔۔۔ سارے جہاں سے دیس اپنا خوبصورت ہے : یوسف خالد

آزادی ہر انسان کی فطری ضرورت ہے – ہر قسم کے جبر سے آزاد اپنی سوچ کے مطابق زندگی بسر کرنے کی آرزو ہمارے لا شعور میں موجود ہوتی ہے – لیکن شعوری سظح پر ہم اس آزادی کے مکمل مفہوم سے اس وقت تک نا آشنا رہتے ہیں جب تک ہم غلامی کی ذلت اور مکروہات سے واقف نہیں ہو جاتے –
آزادی اور غلامی کو سمجھنے کے لیے اگر آزاد فضاؤں میں اڑتے پرندوں کی سرشاری کا مشاہدہ ہی کر لیں اور پنجرے میں قید پرندے کی زندگی کو جان سکیں تو بہت حد تک ہم آزدی کے حقیقی مفہوم سے واقف ہو سکتے ہیں –
مسلمانوں نے صدیوں تک برصغیر پر حکمرانی کی اور ایک عظیم سلطنت میں سیاہ و سفید کے مالک رہے – لیکن آزادی کی یہ نعمت بالآخر چھن گئی – اورغلامی کی ایک طویل رات مسلط ہو گئی – ہمیں بحیثیت قوم ان اسباب پر غور کرنا چاہیے کہ ایک عظیم سلطنت کے زوال کے اسباب کیا تھے- تاریخ کے اوراق ہمارے عروج و زوال کی داستانوں سے بھرے پڑے ہیں –
طویل غلامی نے ہمیں ذہنی و جسمانی طور پر مفلوج کر دیا – ہم فکری جمود کا شکار ہوگئے – سیاسی، سماجی اور معاشی لحاظ سے ہم کوئی متحرک کردار ادا کرنے کے قابل نہ رہے – اور یوں رفتہ رفتہ ہم آزادی کے مفہوم سے بھی نا آشنا ہو گئے –
سر سید احمد خان نے ہماری اس زبوں حالی کو شدت سے محسوس کیا اور اس کے سدِ باب کے لیے مسلمانوں کو علوم کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی – علی گڑھ کو علمی مرکز بنایا اور پھر اس مرکز سے ایک عظیم علمی تحریک نے جنم لیا – یہ سب ہماری تاریخ کا حصہ ہے –
جنگ آزادی کے بعد مسلمانوں میں سیاسی بیداری کی لہر ابھری اور انہیں انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کا خیال آیا – یہ جدو جہد بہت طویل ہے – بیداری کی یہ تحریک جب فکر اقبال سے فیض یاب ہوئی تو اسے نئی توانائی حاصل ہوئی – 1906 میں مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا تو مسلمانوں کو ایک سیاسی پلیٹ فارم میسر آگیا – اس سیاسی جد وجہد کے دوران میں بہت سے مراحل آئے – اقبال اور قائدِ اعظم دونوں ابتدا میں انڈین نیشل ازم کے قائل تھے اور متحدہ ہندوستان کے حق میں تھے – لیکن ہندوؤں کی مسلسل منافقانہ چالوں کے سبب دونوں قائدین یہ سوچنے پر مجبور ہوئے کہ مسلمانوں کا انگریز کی غلامی سے نکل کر ہندؤں کی غلامی قبول کرنا کسی صورت بھی قابل قبول نہیں – اس سوچ کا نتیجہ الگ وطن کے حصول کی کوششوں کے طور پر سامنے آیا اور یوں 1930 میں علامہ اقبال نے آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں الگ وطن کا تصور پیش کیا –
1933
میں چوہدری رحمت علی نے پاکستان کا نام تجویز کیا – اور اس تحریک کو تیز کرنے کی کوششیں شروع ہو
گئیں – 1940 میں قراداد لاہور پاس ہوئی تو ایک ہنگامہ خیز دور شروع ہوا – ہر جگہ حصول پاکستان کی بات ہونے لگی – لوگوں میں نئے وطن کے لیے شعور اجاگر ہونے لگا – 1946 کے الیکشن نے آخر کار مسلمانوں کے مطالبہ کو تسلیم کیے جانے کی راہ ہموار کی – اور یوں ایک سال بعد ایک نئی مملکت وجود میں آگئی –
یہ مختصر کہانی ہے حصول پاکستان کی – قیام پاکستان کے بعد جو دور شروع ہوا وہ در اصل استحکام پاکستان کا دور ہے – اس دور کے ہم سب شاہد بھی ہیں اور اس دور کی ہر کہانی کے کردار بھی ہیں –
آج ہم آزاد فضاؤں میں زندگی گزار رہے ہیں – سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم نے شعوری طور پر اس آزادی کے مفہوم کو سمجھا ہے اور کیا ہم اس آزادی کی حقیقی قدرو قیمت سے واقف ہیں – اور ہم جو جشن آزادی مناتے ہیں یہ جشن محض ہماری روایت کا حصہ ہے یا ہم اسے پوری طرح محسوس کر کے مناتے ہیں –
یہ سوالات بہت تلخ ہیں ہم جب اپنے معاشرے کی مجموعی صورتِ حال پر نظر ڈالتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے آزادی سے جڑی کسی بھی نعمت کا شکر ادا نہیں کیا بلکہ حرص و ہوس کو شعار بنا کر ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا ہے جہاں ہر شخص دوسرے شخص کا استحصال کر رہا ہے – جھوٹ ،فریب کاری، مکاری ،منافع خوری ، ذخیرہ اندوزی ، لوٹ مار ،ملاوٹ اور خود غرضی – غرضیکہ کونسا مکروہ دھندہ ہے جس میں ہم شامل نہیں ہیں – یہ آزادی کی نا شکری اور نا قدری ہے – آزادی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم باہمی احترام کو فروغ دیں اپنے ذاتی مفادات کو کسی صورت بھی ملک و قوم کے مفادات پر ترجیح نہ دیں – ملک کی مجموعی ترقی میں حصہ لیں ملک کو خوشحال بنائیں اور یوں خود بھی خوشحال ہو کر ایک زندہ تہذیب کی خوشبو سے معطر معاشرہ تشکیل دیں – ایک اجلے معاشرے کا سب سے بڑا فیض یہ ہوتا ہے کہ بھائی چارے کو فروغ ملتا ہے اور افرادِ معاشرہ ایک دوسرے کے لیے آگے بڑھنے کا ذریعہ بنتے ہیں اور پورا معاشرہ ترقی کرتا ہے – یہی وہ اوصاف ہیں جن کے ذریعے آزادی کا حقیقی لطف اٹھایا جا سکتا ہے اور آزادی کی حفاظت کی جا سکتی ہے –
ہمیں یہ جاننا ہو گا کہ داخلی انتشار ہمیشہ آزادی کے لیے خطرے کا باعث ہوتا ہے – جیو اور جینے دو کی سوچ ہی ہمیں باہم مضبوط اور نا قابلِ تسخیر بنا سکتی ہے –
کیوں نہ ہم اس یوم آزادی پر یہ عہد کریں کہ ہم ہر حال میں ملک و قوم کی خوشحالی کو یقینی بنانے میں اپنا مثبت کردار ادا کریں گے
ہر اک موسم یہاں موجود ہر نعمت میسر ہے
ہمیں اپنے رویوں کو بدلنے کی ضرورت ہے
اگر احساس میں خوشبو بسی ہو اپنی مٹی کی
تو پھر سارے جہاں سے دیس اپنا خوبصورت ہے
یوسف خالد

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

کالم

ترقی یا پروموشن ۔۔۔۔ خوش قسمتی یا کچھ اور

  • جولائی 11, 2019
ترجمہ : حمیداللہ خٹک کون ہے جوزندگی میں ترقی نہ چاہتاہو؟ تقریباًہرفرد ترقی کی زینے پر چڑھنے کا خواب دیکھتا
کالم

کشمیرمیں انسانی حقوق کی پامالی

  • اگست 6, 2019
از : یوسف خالد کشمیر جل رہا ہے اور دنیا بے حسی کی تصویر بنی ہوئی ہے — دنیا کی