جناب اسلم ملک سے میری ملاقات نہیں ہےلیکن اُن سےمیرا اِحترام کارشتہ ہے۔اِحترام کا رشتہ ۔۔۔جوبن جائے تو ملنے کی ضرورت نہیں رہتی اوراگرنہ بن پائے توہروقت ساتھ رہنے والوں سےبھی بیزاری کا احساس ہونے لگے۔ میں اُن کاقاری ہوںاوراُن کی پوسٹیں اس لیے دیکھتاہوںکہ ان کے ہاں معلومات کا ایک خزانہ موجود ہوتاہے۔موضوعات کا تنوع،سادہ سابیانیہ اورلفظوں پران کی مکمل گرفت ہونے کی وجہ سےاُن کی وال پرگزراوقت پُرلطف ہوتاہے۔
اسلم ملک کی شخصیت کاایک پہلومجھ پراُس وقت کُھلاجب نجمہ منصورکی شاعری پر اُن کی رائے میری نظرسے گزری ۔ایک نامورصحافی کے ہاں اس قدرعجز،متانت اوراِنکساری ۔اس عہدمیں جب کہ صحافت میں اپنی حدسے نکلنااوراپنےقداورقیمت کوبڑھانےکے لیے تمام لوگوں کی پگڑیاں اُچھالنےکا رواج موجودہو، وہ بغیرکسی جھجک کے ایک شاعرہ کے متعلق کہہ رہے ہیں :
’’ مجھے شرمندگی سی ہوئی کہ نظم کی ایک عمدہ شاعرہ سے اب تک بے خبر رہا. نام سے تو واقف تھا، لیکن انہیں بھی بس سینکڑوں غزل گو خواتین میں سے ایک ہی سمجھتا تھا.اب ان کی کتاب” نظم کی بارگاہ میں” نظر سے گزری ہے تو وہ میری پسندیدہ شاعرات تنویر انجم ، عذرا عباس، عطیہ داؤد ،نسرین انجم بھٹی، یاسمین حمیداورمنصورہ احمد وغیرہ والی فہرست میں شامل ہوگئی ہیں.‘‘
ادب اورصحافت ایک ہی سکے کے دورُخ ہیں۔ اوراگرپیشہ وارنہ ضرورت کے تحت انھیںدوخانوں میں تقسیم کربھی دیاجائے توان کی ایک دوسرے کے لیے لازمیت سے انکارممکن نہیں۔اردوادب کی تاریخ پرنظرڈالی جائے تومعلوم ہوتاہےاکثرادیب اورشاعرصحافت کے مقدس پیشہ سے منسلک رہے ۔جنوری ۱۹۰۴ ء میںحیدد آباد دکن سے جاری ہونے والےرسالہ ’’ دکن ریویو‘‘اورپھر’’زمیندار‘‘ کےمدیر مولانا ظفر علی خاں،چراغ حسن حسرت،فیض احمدفیض،پنڈت ہری چند اختر،احمدندیم قاسمی ۔۔۔اس ضمن میں کتنے نام ہیں جوگنواتے چلےجائیں ۔۔۔۔۔ سب جانتے ہیں کہ یہ گنتی مکمل نہیں ہوگی۔
نجمہ منصورنے نثری نظم اس وقت لکھناشروع کی جب اس کاشمارشاعری کی صنف میں کرنے یا نہ کرنے کی بحث جاری تھی ۔مجھے۱۹۸۵ءتا۱۹۹۱ءمیں ڈاکٹروزیرآغاکے ہاں منعقدہونے والی محفلیں یادہیںجہاں پروفیسرغلام جیلانی اصغر،ڈاکٹرسلیم آغا،پروفیسریوسف خالد،ڈاکٹرزاہدمنیرعامر ، ممتازعارف ،ڈاکٹرہارون الرشیدتبسم،پرویزبزمی،نجمہ منصور،ایم ڈی شاداوردیگراحباب ہفتہ میں ایک بارمل بیٹھتے تھے۔ ڈاکٹرانورسدیداورسجادنقوی جب سرگودھامیں موجودہوتے تومحفل کے رونق میں اوربھی اضافہ ہوجاتا۔اردوانشائیہ اورنثری نظم کوشناخت دینے میں ڈاکٹروزیرآغااور اوراق کاکردارادبی تاریخ کا حصہ ہے۔
نجمہ منصورکی نظموں میں کومل اورپاکیزہ جذبوں کی بے شمار چھوٹی بڑی کہانیاں بکھری پڑی ہیں ۔اُس کے ہاں سطحی جذباتیت کی بجائے گہری رموزمیں لپٹی محبت کی کیفیات موجودہیں۔ایسامحسوس ہوتاہے کہ وہ نظم لکھ نہیں رہی بلکہ سنارہی ہے۔اُس کی آوازمیں اِس قدرٹھہراواورسکون ہے کہ سننے والااُس کے آخری لفظ تک اُس کے سامنے بیٹھارہتاہے اورپھر اُس کی اگلی نظم کا انتظارکرتاہے۔ اس کی ایک نظم دیکھیے:
؟
اتنا بھی نہیں جانتی
نظم لکھنے کے لیے
محبت کرنے کے لیے
اور خواب دیکھنے کے لیے
عمر کی کوئی قید نہیں ہوتی!!
اپنی نظموں میں نجمہ منصور خودمختلف کرداروں کے رُوپ میں موجود نظر آتی ہے ۔کہانی سناتی، اپنے آپ سے باتیں کرتی،سوتے جاگتے سپنے دیکھتی ، انسانی رویوں کےمشاہداتی عمل سے گزرتی اوررشتوں کی اُلجھی ڈوریںکوسُلجھاتی۔۔۔۔ ایک ایسی شاعرہ جس نے طویل ریاضت کے بعداپنی ذات کے پھیلاوکوان نظموں میں ڈھال لیاہو:
میرے لیے ایک نظم
میری نظمیں!
کب سے اُس سانولی لڑکی کو ڈھونڈ رہی ہیں
جو میری بے ترتیب نیندوں سے
اپنے خواب چُرا کر لے گئی ہے
اور وہ خواب
اپنی آدھی جاگی آدھی سوئی آنکھوں میں رکھ کر
کہیں کھو گئی ہے
اب میں ، میری نظمیں اور میری نیندیں سب مل کر
اُس سانولی لڑکی کو کھوج رہے ہیں!!
نجمہ منصورکی شاعری پراس مختصرکالم میں گفتگوممکن نہیں۔ یہاں بات اسلم ملک کے عجزوانکسارکی ہورہی تھی۔وہ نجمہ منصورکی نظم پربات سمیٹتے کہتے ہیں :
’’میں نہ نقاد نہ سکالر، محض اخبار نویس…. جو اکثر اخبار بھی نہیں پڑھتے، میں کیا اور میری رائے کیا‘‘
یہ اُن کا بڑاپن ہے ۔یہ لہجہ ادبی حلقوں کے لیےتوانائی کاباعث بھی ہے اورصحافت کے شعبہ سے وابستہ احباب کے لیے قابلِ تقلیدبھی۔
rana asif
جون 3, 2020bohat aala