از : یوسف خالد
کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے تعلیم بنیادی کردار ادا کرتی ہے- تعلیم جہاں ہر کسی کے لیے لازمی ہے وہاں تعلیم کا با مقصد ہونا بھی بہت ضروری ہے – نصابِ تعلیم اور نظام تعلیم میں ایسی تبدیلیوں کی ضرورت ہے جن کے ذریعے یہ یقینی بنایا جا سکے کہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایک فرد اعلیٰ کردار کا حامل ہو گا-محبِ وطن ہو گا اور اپنے پیشے اور خدمات کے حوالے سے انتہائی با ہنر ہو گا- یہ اہداف حاصل کیے جا سکتے ہیں – غور کیجیے اگر تعلیم یافتہ افراد اپنی نیت اور اہلیت کے اعتبار سے اعلیٰ ترین معیار کے حامل ہوں تو ریاستی امور کتنی خوش اسلوبی سے چلائے جا سکتے ہیں –
ہماری ریاست اپنے لیے ایسے افراد پیدا نہیں کر سکی جن کی حب الوطنی، غیرت اور ایمان داری کسی بھی شک و شبہ سے بالا تر ہو– ذرا سوچیں اگر انتظامیہ کے افسران، عدلیہ کے ججز، وکلا اور اساتذہ قومی جذبے سے سرشار ہوں اور پوری اہلیت کے حامل ہوں – بے خوف ہوں غیر جانبدار ہوں،ایماندار ہوں تو کیا کسی کو حق مانگنے کی ضرورت پیش آئے گی- ہر گز نہیں — سوال یہ ہے کہ ایسے افراد کہاں سے آئیں گے — جواب یہ ہے کہ جس طرح آج ہر شخص ریاست کے کردار سے غیر مطمئن ہے اور احتجاج کر رہا ہے اسی طرح کا ایک احتجاج بہتر تعلیم کے لیے بھی ہونا چاہیے – 18 سال میں ایک بالکل نئی تعلیم یافتہ افرادی قوت میدان میں اتاری جا سکتی ہے -جو اپنے کردار اور اہلیت سے ملک وقوم کا مقدر بدل سکتی ہے –
انسان سازی ممکن ہے، جدید نفسیات کے تحت بنائے ہوئے تربیتی پروگرام اور تجزیاتی سوچ کو پروان چڑھانے والا نصاب ہمیں منزل تک پہنچا سکتا ہے –
تعلیم کو کاروباری تسلط سے آزاد کروانا ہو گا اور ریاست کو اپنی ذمہ داری نبھانا ہو گی — ترقی یافتہ ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں –
یوسف خالد