غزل

غزل : نوید ملک

نویدملک
نوید ملک
ہزاروں بار جو بنتے ہیں مِحور ٹوٹتے ہیں
مرے بستر پہ سارے خواب تھک کر ٹوٹتے ہیں
۔
ٹپکتا ہے کسی تصویر سے جب لمس اُس کا
مری آغوش میں آ کر سمُندر ٹوٹتے ہیں
۔
تمہارے بعد ہاتھوں پر نہیں جچتی یہ گھڑیاں
الجھ کر خود سے اب لمحوں کے یاوَر ٹوٹتے ہیں
۔
ابلتی ہیں تماشوں پر یہاں لوگوں کی آنکھیں
ہمارے اشک بھی سینے کے اندر ٹوٹتے ہیں
۔
کسی کا نام ہونٹوں پر بس اک دن جھلملایا
ستارے تب سے آکر میری چھت پر ٹوٹتے ہیں
۔۔
نوید ملک

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں