افسانہ

چوری : سعادت حسن منٹو


سعادت حسن منٹو
"بابا جی کوئی کہانی سنائیے۔” سکول کے تین چار لڑکے الاؤ کے گرد حلقہ بنا کر بیٹھ گئے اور اس بوڑھے آدمی سے جو ٹاٹ پر بیٹھا اپنے استخوانی ہاتھ آگ تاپنے کی خاطر الاؤ کی طرف بڑھائے ہوئے تھا، کہنے لگے۔
مردِ معمر نے جو غالباً کسی گہری سوچ میں غرق تھا، اپنا بھاری سر اٹھایا جو گردن کی لاغری کی وجہ سے نیچے کو جھکا ہوا تھا۔
"کہانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں خود ایک کہانی ہوں، مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
اس کے بعد کے الفاظ اس نے اپنے پوپلے منہ میں ہی بڑبڑائے، شاید وہ اس جملہ کو لڑکوں کے سامنے ادا کرنا نہیں چاہتا تھا جنکی سمجھ اس قابل نہ تھی کہ وہ اس قسم کے فلسفیانہ نکات حل کر سکیں۔
لکڑی کے ٹکڑے ایک شور کے ساتھ جل جل کر الاؤ کے آتشیں شکم کو پر کر رہے تھے۔ شعلوں کی عنابی روشنی لڑکوں کے معصوم چہروں پر ایک عجیب انداز میں رقص کر رہی تھی۔ ننھی ننھی چنگاریاں سپید راکھ کی نقاب الٹ الٹ کر حیرت میں سر بلند شعلوں کا منہ تک رہی تھیں۔ درختوں کے خشک پتے بڑی دلیری سے آگ کا مقابلہ کرتے ہوئے اس شعلہ افشاں قبر میں ہمیشہ کے لئے کود رہے تھے۔ سرد ہوا کے جھونکے کوٹھڑی کی گرم فضا کا استقبال کرتے ہوئے اسکے ساتھ بڑی گرمجوشی سے بغلگیر ہو رہے تھے، کونے میں مٹی کا ایک دیا اپنی کمزور روشنی پر آنسو بہا رہا تھا۔
"کہانی۔۔۔۔۔۔ہر روز کہانی، کل سناؤں گا۔” بوڑھے آدمی نے الاؤ کی روشنی میں سے لڑکوں کی طرف نگاہیں اٹھا کر کہا۔
لڑکوں کے تمتمائے ہوئے چہروں پر افسردگی چھا گئی، نا امیدی کے عالم میں وہ ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے گویا وہ آنکھوں ہی آنکھوں میں کہہ رہے تھے، آج رات کہانی سنے بغیر سونا ہو گا۔
یکایک ان میں سے ایک لڑکا جو دوسروں کی نسبت بہت ہوشیار اور ذہین معلوم ہوتا تھا، الاؤ کے قریب تر سرک کر بلند آواز میں بولا۔
"مگر کل آپ نے وعدہ کیا تھا اور وعدہ خلافی کرنا درست نہیں ہے، کیا آپ کو کل والے حامد کا انجام یاد نہیں جو ہمیشہ اپنا کہا بھول جاتا تھا۔”
"درست۔۔۔۔۔میں بھول گیا تھا۔” بوڑھے آدمی نے یہ کہتے ہوئے اپنا سر جھکا لیا جیسے وہ اپنی بھول پر نادم ہے۔ تھوڑی دیر بعد وہ اس دلیر لڑکے کی جرأت کا خیال کر کے مسکرایا۔ "میرے بچے مجھ سے غلطی ہو گئی ہے معاف کر دو، مگر میں کونسی کہانی سناؤں، ٹھہرو مجھے یاد کر لینے دو۔” یہ کہتے ہوئے وہ سر جھکا کر گہری سوچ میں غرق ہو گیا۔
اسے جن اور پریوں کی لا یعنی داستانوں سے سخت نفرت تھی، وہ بچوں کی وہی کہانیاں سنایا کرتا تھا جو انکے دل و دماغ کی اصلاح کر سکیں۔ اسے بہت سے فضول قصے یاد تھے جو اس نے اپنے ایامِ طفلی میں سنے تھے یا کتابوں سے پڑھے تھے مگر اس وقت وہ اپنے بربطِ پیری کے بوسیدہ تار چھیڑ رہا تھا کہ شاید ان میں کوئی خوابیدہ راگ جاگ اٹھے۔
لڑکے بابا جی کو خاموش دیکھ کر آپس میں آہستہ آہستہ گفتگو کر رہے تھے، غالباً وہ کسی لڑکے کا ذکر کر رہے تھے جسے کتاب چرانے پر بید کی سزا ملی تھی۔ باتوں باتوں میں ان میں سے کسی نے بلند آواز میں کہا۔
"ماسٹر جی کے لڑکے نے بھی تو میری کتاب چرا لی تھی مگر اسے سزا وزا نہ ملی تھی۔”
"کتاب چرا لی تھی۔” ان چار لفظوں نے جو پوری آواز میں ادا کئے گئے تھے، بوڑھے کی خفتہ یاد میں ایک واقعے کو جگا دیا۔ اس نے اپنا سپید سر اٹھایا اور اپنی آنکھوں کے سامنے اس فراموش کردہ داستان کو انگڑائیاں لیتے ہوئے پایا۔ ایک لمحے کے لیئے اسکی آنکھوں میں چمک پیدا ہوئی مگر ساتھ ہی وہیں غرق ہو گئی۔۔۔۔۔۔اضطراب کی حالت میں اس نے اپنے نحیف جسم کو جنبش دے کر الاؤ کے قریب کیا۔ اسکے چہرے کے تغیر و تبدل سے صاف طور پر عیاں تھا کہ وہ کسی واقعے کو دوبارہ یاد کر کے بہت تکلیف محسوس کر رہا ہے۔
الاؤ کی روشنی بدستور لڑکوں کے چہروں پر ناچ رہی تھی۔۔۔۔۔دیا اسی طرح اپنے جلے نصیبوں کو رو رہا تھا۔ کوٹھڑی کے باہر رات سیاہ زلفیں بکھیرے روشنی کی طرف اپنی تاریک آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہی تھی۔ لڑکے آپس میں سکول کی باتیں کرنے میں مشغول تھے، چھت جھک کر انکی معصوم باتوں کو کان لگا کر سن رہی تھی۔
دفعتاً بوڑھے نے آخر ارادہ کرتے ہوئے کہا۔ "بچو، آج میں اپنی کہانی سناؤں گا۔”
لڑکے فوراً اپنی گفتگو چھوڑ کر ہمہ تن گوش ہو گئے۔ الاؤ کی چیختی ہوئی لکڑیاں ایک شور کے ساتھ اپنی جگہ پر ابھر کر خاموش ہو گئیں۔۔۔۔۔۔ایک لمحے کے لیئے فضا پر مکمل سکوت طاری رہا۔
"اپنی کہانی سنائیں گے؟” ایک لڑکے نے خوش ہو کر کہا۔ باقی سرک کر آگ کے قریب خاموشی سے بیٹھ گئے۔
"ہاں، اپنی کہانی۔” یہ کہہ کر بوڑھے آدمی نے اپنی جھکی ہوئی گھنی بھوؤں میں سے کوٹھڑی کے باہر تاریکی میں دیکھنا شروع کیا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ پھر لڑکوں سے مخاطب ہوا۔ "میں آج تمھیں اپنی پہلی چوری کی داستان سناؤں گا۔”
لڑکے حیرت سے ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے، انہیں در اصل یہ وہم و گمان بھی نہ تھا کہ بابا جی کسی زمانے میں چوری بھی کرتے رہے ہیں۔ بابا جی جو ہر وقت انہیں برے کاموں سے بچنے کے لیئے نصیحت کیا کرتے ہیں۔
لڑکا جو ان سب میں دلیر تھا اپنی حیرانی نہ چھپا سکا۔ "مگر کیا آپ نے واقعی چوری کا ارتکاب کیا تھا؟”
"واقعی”
"آپ اس وقت کونسی جماعت میں پڑھا کرتے تھے؟”
"نویں میں”
یہ سن کر لڑکے کی حیرت اور بھی بڑھ گئی، اسے اپنے بھائی کا خیال آیا جو نویں جماعت میں تعلیم پا رہا تھا، وہ اس سے عمر میں دوگنا تھا۔ اسکی تعلیم اس سے کہیں زیادہ تھی، وہ انگریزی کی کئی کتابیں پڑھا ہوا تھا اور اسے ہر وقت نصیحتیں کیا کرتا تھا۔ پھر یہ کیونکر ممکن تھا کہ اس عمر کا لڑکا اور اچھا پڑھا لکھا لڑکا چوری کرے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسکی عقل اس معمے کو نہ حل کر سکی، چنانچہ اس نے پھر سوال کیا۔
"آپ نے چوری کیوں کی؟”
یہ مشکل سوال دیکھ کر بوڑھا تھوڑی دیر کے لیئے بہت گھبرایا، آخر وہ اسکا کیا جواب دے سکتا تھا کہ فلاں کام اس نے کیوں کیا؟ بظاہر اسکا جواب یہی ہو سکتا تھا "اس لیئے کہ اس وقت دماغ میں یہی خیال آیا۔”
بوڑھے نے دل میں یہی جواب سوچا مگر اس سے مطمئن نہ ہو کر یہی بہتر خیال کیا کہ تمام داستان من و عن بیان کر دی جائے، اس لیئے کہ وہ بذاتِ خود اس سوال کا سب سے آسان جواب ہے۔
"اسکا جواب میری کہانی ہے جو تمھیں سنانے والا ہوں۔”
"سنائیے۔”
لڑکے اس بوڑھے آدمی کی چوری کا حال سننے کے لیئے اپنی اپنی جگہ پر جم کر بیٹھ گئے، جو الاؤ کے سامنے اپنے سپید بالوں کو انگلیوں سے کنگھی کر رہا تھا اور جسے وہ ایک بہت بڑا آدمی خیال کرتے تھے۔
مردِ معمر کچھ عرصے تک خاموش اپنے بالوں میں انگلیاں پھیرتا رہا پھر اس بھولے ہوئے واقعے کے تمام منتشر ٹکڑے فراہم کر کے بولا۔
"ہر شخص خواہ وہ بڑا ہو یا چھوٹا، اپنی زندگی میں کوئی نہ کوئی ایسی حرکت ضرور کرتا ہے جس پر وہ تمام عمر نادم رہتا ہے۔ میری زندگی میں سب سے برا فعل ایک کتاب کی چوری ہے۔”
یہاں تک پہنچ کر وہ رک گیا، اسکی آنکھیں جو ہمیشہ ایک ناقابلِ انداز میں چمکتی رہتی تھیں، دھندلی پڑ گئیں۔ اسکے چہرے کی تبدیلی سے صاف ظاہر تھا کہ وہ اس واقعے کو بیان کرتے ہوئے زبردست ذہنی تکلیف کا سامنا کر رہا ہے۔ چند لمحات کے توقف کے بعد وہ پھر گویا ہوا۔
"سب سے مکروہ فعل کتاب کی چوری ہے جو میں نے ایک کتب فروش کی دکان سے چرائی۔ یہ اس زمانے کا ذکر ہے جب میں نویں جماعت میں تعلیم پا رہا تھا۔ قدرتی طور پر جیسا کہ اب تمھیں کہانی سننے کا شوق ہے، مجھے افسانے یا ناول پڑھنے کا شوق تھا۔۔۔۔۔۔۔۔نہیں خبط تھا۔ دوستوں سے مانگ کر یا خود خرید کر میں ہر ہفتے ایک نہ ایک کتاب ضرور مطالعہ کیا کرتا تھا۔ وہ کتابیں عموماً عشق و محبت کی بے معنی داستانیں یا فضول جاسوسی قصے ہوا کرتے تھے۔
یہ کتابیں میں ہمیشہ چھپ چھپ کر پڑھا کرتا تھا، میرے والدین کو میری اس حرکت کی کوئی خبر نہ تھی، اگر انہیں معلوم ہوتا تو وہ مجھے ہر گز ایسا نہ کرنے دیتے، اس لیئے کہ اس قسم کی کتابیں سکول کے لڑکے کے لیئے بہت نقصان دہ ہوتی ہیں۔ میں انکے مہلک نقصان سے غافل تھا، چنانچہ مجھے اسکا نتیجہ بھگتنا پڑا۔۔۔۔۔۔۔میں نے چوری کی اور پکڑا گیا۔”
"آپ پکڑے گئے؟” ایک لڑکے نے حیرت زدہ ہو کر کہا۔
"ہاں پکڑا گیا۔۔۔۔۔۔چونکہ میرے والدین اس واقعے سے بالکل بے خبر تھے۔ یہ عادت پکتے پکتے میری طبیعت بن گئی۔ اب مجھے ہر روز ایک کتاب یعنی ناول کی ضرورت لاحق ہونے لگی۔ گھر سے جتنے پیسے ملتے میں انہیں جوڑ جوڑ کر بازار سے افسانوں کی کتابیں خریدنے میں صرف کر دیتا۔ سکول کی پڑھائی سے رفتہ رفتہ مجھے نفرت ہونے لگی۔ پس ہر وقت میرے دل میں یہی خیال سمایا رہتا کہ فلاں کتاب جو فلاں ناول نویس کی لکھی ہوئی ہے ضرور پڑھنی چاہیئے، یا فلاں کتب فروش کے پاس نئی ناولوں کا ایک ذخیرہ موجود ہے وہ ایک نظر ضرور دیکھنا چاہیئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔شوق کی یہ انتہا دوسرے معنوں میں دیوانگی ہے۔ اس حالت میں انسان کو معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کیا کرنے والا ہے یا کیا کر رہا ہے۔ اس وقت وہ ایک بے عقل بچے کی مانند ہوتا ہے جو اپنی طبیعت خوش کرنے یا شوق پورا کرنے کے لیئے جلتی ہوئی آگ میں ہاتھ ڈال دیتا ہے۔ اسے یہ پتا نہیں ہوتا کہ وہ چمکنے والی شے جسے وہ پکڑ رہا ہے اسکا ہاتھ جلا دے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٹھیک یہی حالت میری تھی۔ فرق اتنا ہے کہ بچہ شعور سے محروم ہوتا ہے اس لیئے وہ بغیر سمجھے بوجھے بری سے بری حرکت کر بیٹھتا ہے مگر میں نے عقل کا مالک ہوتے ہوئے چوری ایسے مکروہ جرم کا ارتکاب کیا۔ یہ آنکھوں کی موجودگی میں میرے اندھے ہونے کی دلیل ہے۔ میں ہر گز ایسا کام نہ کرتا اگر میری عادت مجھے مجبور نہ کرتی۔
ہر انسان کے دماغ میں شیطان موجود ہوتا ہے جو وقتاً فوقتاً اسے برے سے برے کام کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ یہ شیطان مجھ پر اس وقت غالب آیا جب کہ سوچنے کے لیئے بہت کم وقت تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔خیر۔”
لڑکے خاموشی سے بوڑھے کے ہلتے ہوئے لبوں کی طرف نگاہیں گاڑے اسکی داستان کو سن رہے تھے۔ داستان کا تسلسل اس وقت ٹوٹتے دیکھ کر جب کہ اصل مقصد بیان کیا جانے والا تھا وہ بڑی بیقراری سے بقایا تفصیل کا انتظار کرنے لگے۔
"مسعود بیٹا، یہ سامنے والا دروازہ تو بند کر دینا، سرد ہوا آ رہی ہے۔” بوڑھے نے اپنا کمبل گھٹنوں پر ڈالتے ہوئے کہا۔
مسعود "اچھا بابا جی” کہہ کر اٹھا اور کوٹھڑی کا دروازہ بند کرنے کے بعد اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔
"ہاں تو ایک دن جب کہ والد گھر سے باہر تھے۔” بوڑھے نے اپنی داستان سنانا شروع کر دی۔ "مجھے بھی کوئی خاص کام نہ تھا اور وہ کتاب جو میں ان دنوں پڑھ رہا تھا قریب الاختتام تھی، اس لیئے میرے جی میں آئی کہ چلو فلاں کتب فروش تک ہو آئیں جسکے پاس بہت سی جاسوسی ناولیں پڑی ہوئی تھیں۔
میری جیب میں اس وقت کچھ پیسے موجود تھے جو ایک معمولی ناول کے دام ادا کرنے کے لیئے کافی تھے چنانچہ میں گھر سے سیدھا اس کتب فروش کی دکان پر گیا۔ یوں تو اس دکان پر ہر وقت بہت اچھی اچھی ناولیں موجود رہتی تھیں مگر اس دن خاص طور پر بالکل نئی کتابوں کا ایک ڈھیر باہر تختے پر رکھا ہوا تھا۔ ان کتابوں کے رنگ برنگے سر ورق دیکھ کر میری طبیعت میں ایک ہیجان سا برپا ہو گیا۔ دل میں یہ خواہش گدگدانے لگی کہ وہ تمام میری ملکیت بن جائیں۔
میں دکاندار سے اجازت لیکر ان کتابوں کو ایک نظر دیکھنے میں مشغول ہو گیا۔ ہر کتاب کے شوخ سر ورق پر اس قسم کی کوئی نہ کوئی عبارت لکھی ہوئی تھی۔
"یہ نا ممکن ہے کہ اس کا مطالعہ آپ پر سنسنی نہ طاری کر دے۔”
"مصورِ اسرار کا لاثانی شاہکار۔”
"تمثیل، ہیجان، رومان۔۔۔۔۔۔۔۔۔سب یکجا”
اس قسم کی عبارتیں اشتیاق بڑھانے کے لیئے کافی تھیں مگر میں نے کوئی خاص توجہ نہ دی اس لیئے کہ میری نظروں سے اکثر ایسے الفاظ گزر چکے تھے۔ گو اسکے ساتھ ہی مجھے یہ خواہش ضرور تھی کہ میں ان کتابوں کا مالک بن جاؤں۔ خیر میں تھوڑا عرصہ کتابوں کو الٹ پلٹ کر دیکھتا رہا۔ اس وقت میرے دل میں چوری کرنے کا خیال مطلقاً نہ تھا بلکہ میں نے خریدنے کے لیئے ایک کم قیمت کی ناول چن کر علیحدہ کر رکھی تھی۔
تھوڑی دیر کے بعد دل میں یہ ارادہ کر کے کہ میں دوسرے ہفتے ان ناولوں کو دوبارہ دیکھنے آؤنگا، میں نے اپنی انتخاب کردہ کتاب اٹھائی، کتاب کا اٹھانا تھا کہ میری نگاہیں ایک مجلد ناول پر گڑ گئیں۔ سر ورق کے ایک کونے پر میرے محبوب ناولسٹ کا نام سرخ لفظوں میں چھپا ہوا تھا، اسکے ذرا اوپر کتاب کا نام تھا۔
"منتقم شعاعیں۔۔۔۔۔۔۔کسطرح ایک دیوانے ڈاکٹر نے لندن کو تباہ کرنے کا ارادہ کیا۔”
یہ سطور پڑھتے ہی میرے اشتیاق میں ایک قسم کی طغیانی آ گئی۔ کتاب کا وہی مصنف، جس نے اس سے پیشتر مجھ پر راتوں کی نیند حرام کر رکھی تھی۔ ناول کو دیکھتے ہی میرے دماغ میں خیالات کا ایک گروہ داخل ہو گیا۔
"منتقم شعاعیں۔۔۔۔۔۔۔دیوانے ڈاکٹر کی ایجاد۔۔۔۔۔۔۔۔کیسا دلچسپ افسانہ ہو گا۔
لندن تباہ کرنے کا ارادہ۔۔۔۔۔۔۔یہ کسطرح ہو سکتا ہے؟
اس مصنف نے فلاں فلاں کتابیں کتنی سنسنی خیز لکھی ہیں۔
یہ کتاب ضرور ان سے بہتر ہو گی۔”
میں خاموش اس کتاب کی طرف دیکھ رہا تھا اور یہ خیالات یکے بعد دیگرے میرے کانوں میں شور برپا کر رہے تھے۔ میں نے اس کتاب کو اٹھایا اور کھول کر دیکھا تو پہلے ورق پر یہ عبارت نظر آئی۔
"مصنف اس کتاب کو اپنی بہترین تصنیف قرار دیتا ہے۔”
ان الفاظ نے میرے اشتیاق کی آگ میں ایندھن کا کام دیا۔ دفعتاً میرے دماغ کے خدا معلوم کس گوشے سے ایک خیال کود پڑا وہ یہ کہ میں اس کتاب کو اپنے کوٹ میں چھپا کر لے جاؤں۔۔۔۔۔۔۔۔۔میری آنکھیں بے اختیار کتب فروش کی طرف مڑیں جو ایک کاغذ پر کچھ لکھنے میں مشغول تھا۔ دکان کی دوسری طرف دو نوجوان کھڑے میری طرح کتابیں دیکھ رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔میں سر سے پیر تک لرز گیا۔”
یہ کہتے ہوئے بوڑھے کا نحیف جسم اس واقعے کی یاد سے کانپا، تھوڑی دیر خاموش رہ کر اس نے پھر اپنی داستان شروع کر دی۔
"ایک لحظے کے لئے میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ چوری کرنا بہت برا کام ہے مگر ضمیر کی یہ آواز سر ورق پر بنی ہوئی لانبی لانبی شعاعوں میں غرق ہو گئی۔ میرا دماغ ‘منتقم شعاعیں’ ‘منتقم شعاعیں’ کی گردان کر رہا تھا۔ میں نے ادھر ادھر جھانکا اور جھٹ سے وہ کتاب کوٹ کے اندر بغل میں دبا لی۔۔۔۔۔۔یہ کرتے ہوئے میرے دونوں ہاتھ اور ٹانگیں بڑے زور سے کانپ رہے تھے۔
اس حالت پر قابو پا کر میں کتب فروش کے قریب گیا اور اس کتاب کے دام ادا کر دیئے جو میں نے پہلے منتخب کی تھی۔ قیمت لیتے وقت اور روپے میں سے باقی پیسے واپس کرنے میں اس نے غیر معمولی تاخیر لگا دی۔ اسکے علاوہ وہ میری طرف اس وقت عجیب نگاہوں سے دیکھ رہا تھا جس سے میری طبیعت سخت پریشان ہو رہی تھی۔ جی یہی چاہتا تھا کہ سب کچھ چھوڑ کر وہاں سے بھاگ نکلوں۔
اس دوران میں میں نے کئی بار اس جگہ پر جو کتاب کی وجہ سے ابھری ہوئی تھی، نگاہ ڈالی۔۔۔۔۔۔اور شاید اسے چھپانے کی بے سود کوشش بھی کی۔ میری ان عجیب حرکتوں کو دیکھ کر اسے شک ضرور ہوا اس لیئے کہ وہ بار بار کچھ کہنے کی کوشش کر کے پھر خاموش ہو جاتا تھا۔
میں نے باقی پیسے جلدی سے پکڑے اور وہاں سے چل دیا۔ دو سو قدم کے فاصلے پر میں نے کسی کی آواز سنی، مڑ کر دیکھا تو کتب فروش ننگے پاؤں چلا آ رہا تھا اور مجھے ٹھہرنے کے لیئے کہہ رہا تھا، یہ دیکھتے ہی میں نے اندھا دھند بھاگنا شروع کر دیا۔
مجھے معلوم نہ تھا کہ میں کدھر بھاگ رہا ہوں، اسکے علاوہ میں اپنے گھر کی جانب رخ کئے ہوئے نہ تھا بلکہ میں شروع ہی سے اس طرف بھاگ رہا تھا جدھر بازار کا اختتام تھا، اس غلطی کا مجھے اس وقت احساس ہوا جب دو تین آدمیوں نے مجھے پکڑ لیا۔”
بوڑھا اتنا کہہ کر اضطراب کی حالت میں اپنی خشک زبان لبوں پر پھیرنے لگا، کچھ توقف کے بعد وہ ایک لڑکے سے مخاطب ہوا۔ "مسعود، پانی کا ایک گھونٹ تو پلوانا۔”
مسعود خاموشی سے اٹھا اور کوٹھڑی کے ایک کونے میں پڑے ہوئے گھڑے سے گلاس میں پانی انڈیل کر لے آیا۔ بوڑھے نے گلاس کو پکڑتے ہی منہ سے لگا لیا اور ایک ہی گھونٹ میں سارا پانی پی لیا۔ "ہاں میں کیا بیان کر رہا تھا؟” بوڑھے نے خالی گلاس کو زمین پر رکھتے ہوئے کہا۔
"آپ بھاگے جا رہے تھے۔” ایک لڑکے نے جواب دیا۔
"میرے پیچھے کتب فروش چور، چور کی آواز بلند کرتا ہوا بھاگا چلا آ رہا تھا، جب میں نے دو تین آدمیوں کو اپنے قریب پہنچتے ہوئے دیکھا تو میرے ہوش ٹھکانے نہ رہے۔ جیل کی آہنی سلاخیں، پولیس اور عدالت کی تصویریں ایک ایک کر کے میری آنکھوں کے سامنے رقص کرنے لگیں۔ بے عزتی کا خیال آتے ہی میری پیشانی عرق آلود ہو گئی، میں لڑکھڑایا اور گر پڑا، اٹھنا چاہا تو ٹانگوں نے جواب دے دیا۔ اس وقت میرے دماغ کی عجیب حالت تھی، ایک تند دھواں سا میرے سینے میں کروٹیں لے رہا تھا۔ آنکھیں فرطِ خوف سے ابل رہی تھیں اور کانوں میں ایک زبردست شور برپا تھا جیسے بہت سے لوگ آہنی چادروں کو ہتھوڑوں سے کوٹ رہے ہیں، میں ابھی اٹھ کر بھاگنے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ کتب فروش اور اسکے ہمراہ دو تین آدمیوں نے مجھے پکڑ لیا، اس وقت میری کیا حالت تھی، اسکا بیان کرنا بہت دشوار ہے، سینکڑوں خیالات پتھروں کی طرح میرے دماغ کے ساتھ ٹکرا ٹکرا کر مختلف قسم کی آوازیں پیدا کر رہے تھے۔ جب انہوں نے مجھے پکڑا تو ایسا معلوم ہوا کہ آہنی پنجرے نے میرے دل کو پکڑ کر مسل ڈالا ہے، میں بالکل خاموش تھا اور وہ مجھے دکان کی طرف کشاں کشاں لے جا رہے تھے۔
جیل خانے کی کوٹھڑی یا عدالت کا دروازہ دیکھنا یقینی تھا، یہ خیال کرتے ہوئے میرے ضمیر نے مجھ پر لعنت ملامت کرنا شروع کر دی۔ چونکہ اب جو ہونا تھا، ہو چکا تھا اور میرے پاس اپنے ضمیر کو جواب دینے کے لیئے کوئی الفاظ موجود نہ تھے، میری گرم آنکھوں میں آنسو اتر آئے اور میں نے بے اختیار رونا شروع کر دیا۔”
یہ کہتے ہوئے بوڑھے کی دھندلی آنکھیں نمناک ہو گئیں۔
"کتب فروش نے مجھے پولیس کے حوالے نہ کیا، اپنی کتاب لے لی اور ٹھوڑی دیر نصیحت کرنے کے بعد چھوڑ دیا۔” بوڑھے نے اپنے آنسو کمبل سے خشک کرتے ہوئے کہا۔ "خدا اس کو جزائے خیر دے، میں عدالت کے دروازے سے تو بچ گیا مگر اس واقعے کی والد اور سکول کے لڑکوں کو خبر ہو گئی، والد مجھ پر سخت خفا ہوئے اور ہر ممکن طریقے سے مجھے اس مکروہ فعل پر شرم دلانے کے بعد معاف کر دیا۔
دو تین روز مجھے اس ندامت میں بخار آتا رہا، اسکے بعد جب میں نے دیکھا کہ میرا دل کسی کروٹ آرام نہیں لیتا اور مجھ میں اتنی قوت نہیں کہ میں لوگوں کے سامنے اپنی نگاہیں اٹھا سکوں تو میں شہر چھوڑ کر وہاں سے ہمیشہ کے لیئے روپوش ہو گیا۔ اس وقت سے لیکر اب تک میں نے مختلف شہروں کی خاک چھانی ہے، ہزاروں مصائب برداشت کئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔صرف اس کتاب کی چوری کی وجہ سے، جو مجھے تا دمِ مرگ نادم و شرمسار رکھے گی۔
اس آوارہ گردی کے دوران میں میں نے اور بھی بہت سی چوریاں کیں، ڈاکے ڈالے اور ہمیشہ پکڑا گیا، مگر میں ان پر نادم نہیں ہوں، مجھے فخر ہے۔”
یہ کہتے ہوئے بوڑھے کی دھندلی آنکھوں میں پھر پہلی سی چمک نمودار ہو گئی اور اس نے الاؤ کے شعلوں کو ٹکٹکی لگا کر دیکھنا شروع کر دیا۔
"ہاں، مجھے فخر ہے۔” یہ الفاظ اس نے ٹھوڑے توقف کے بعد دوبارہ کہے۔
آگ کا ایک شعلہ نہ معلوم کیوں بلند ہوا اور ایک لمحہ فضا میں تھر تھرا کر پھر الاؤ کی آغوش میں سو گیا۔ بوڑھے نے شعلے کی جرأت دیکھی اور مسکرا دیا، پھر لڑکوں سے مخاطب ہو کر کہنے لگا۔
"کہانی ختم ہو گئی ہے، اب تم جاؤ، تمھارے والدین انتظار کرتے ہونگے۔”
"مگر آپ کو اپنی دوسری چوریوں پر فخر کیوں ہے؟” مسعود نے سوال کیا۔
"آہ، فخر کیوں ہے؟” بوڑھا مسکرایا۔ "اس لئے کہ وہ چوریاں نہیں تھیں، اپنی سرقہ شدہ چیزوں کو دوبارہ حاصل کرنا چوری نہیں میرے عزیز، بڑے ہو کر تمھیں اچھی طرح معلوم ہو جائے گا۔”
"میں سمجھا نہیں۔”
"ہر وہ چیز جو تم سے چرا لی گئی ہو، تمھیں حق حاصل ہے کہ اسے ہر ممکن طریقے سے اپنے قبضے میں لے آؤ، مگر یاد رہے تمھاری یہ کوشش کامیاب ہونی چاہیئے ورنہ ایسا کرتے ہوئے پکڑے جانا اور اذیتیں اٹھانا عبث ہے۔”
لڑکے اٹھے اور بابا جی کو شب بخیر کہتے ہوئے کوٹھڑی کے دروازے سے باہر چلے گئے، بوڑھے کی نگاہیں انکو تاریکی میں گم ہوتے دیکھ رہی تھیں، تھوڑی دیر اسی طرح دیکھنے کے بعد وہ اٹھا اور کوٹھڑی کا دروازہ بند کرتے ہوئے بولا۔
"آہ، اگر بڑے ہو کر وہ صرف کھوئی ہوئی چیزیں واپس لے سکیں۔”
بوڑھے کو خدا معلوم ان لڑکوں سے کیا امید تھی۔

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

افسانہ

بڑے میاں

  • جولائی 14, 2019
  افسانہ : سلمیٰ جیلانی انسانوں کی کہانیاں ہر وقت ہواؤں میں تیرتی پھرتی ہیں یہ ان کی روحوں کی
افسانہ

بھٹی

  • جولائی 20, 2019
  افسانہ نگار: محمدجاویدانور       محمدعلی ماشکی نے رس نکلے گنے کے خشک پھوگ کو لمبی چھڑی کی