غزل

غزل : ناصر علی سید

 

شبِ فراق خیالِ وصال کم کم ہے

یہ اور بات طبیعت بحال کم کم ہے

 

جو ایک رسم  چلی تھی مزاج پُرسی کی

کبھی بہت تھی مگراب کے سال کم کم ہے

 

نظرکے پاس مگر دل سے دُور تھا ایسا

بچھڑنے والاہے لیکن  ملال کم کم ہے

 

بس اپنی دُھن میں برستاہے برسے ہی جائے

اُجڑنے  والے  دلوں  کا  خیال  کم کم ہے

 

لواب توکھُل گئی خوش قامتیٔ یاراں بھی

کہ بولتے توسبھی ہیں کمال کم کم ہے

 

بچھڑکے مجھ سے وہ کھوبیٹھا تازگی ناصر

جمیل اب بھی ہے لیکن جمال کم کم ہے

 

 

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں