خطوط

ڈاکٹر وزیر آغا (مرحوم ) کے خط میرے نام (2) : ڈاکٹرستیہ پال آنند

۔۔۔ یعنی کہ وہی بات ہوئی جس کا مجھے خدشہ تھا۔ پہلے تو آپ اقبال کے اس مقولے پر مضبوطی سے قائم تھے کہ ’’دل‘‘ اور ’’دماغ‘‘ میں کدورت کے امکان کے بارے میں سوچنا ہی غلط ہے۔ دل تو ایک بچہ ہے جو کھلونوں کی دکان میں سجا ہوا ہر کھلونا اُچک کر بھاگنا چاہتا ہے، لیکن دماغ اس کے ساتھ کھڑے اس باپ کی طرح ہے جو اسے سختی سے روک ٹوک نہ کرتے ہوئے بھی اپنی ’پاسبانی‘ کا فرض نبھاتا ہے اور پیار سے اس کی خواہشات کا رُخ دوسری طرف موڑ دیتا ہے۔ اقبال بھی دل پرسخت قدغن کےقائل نہیں تھے۔ ’’لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے ‘‘ کہہ کر انہوں نے ایک دروازہ بند کرنے کے بعد ایک کھڑکی کھلی چھوڑ دی تھی۔
آپ کے مکتوب میں دل اور دماغ کو کھشتری اور برہمن کی پدوی دی گئی ہے۔ ہندو نظام ِ زیست میں ’برہمن‘ اور ’کھشتری‘ کا حوالہ دیتے ہوئے ’دل‘ اور ’دماغ‘ کے مابین ان کے فرائض کی تقسیم کچھ اس طرح کرنا چاہتے ہیں کہ کھشتری (یعنی دل) کا فرض چونکہ تلوار اٹھانا ہے اس لیے وہ تو ہمہ وقت ـ تلوار اٹھانے کے لیے تیار رہتا ہے، لیکن اس کی غرض و غائت کو دلیل سے ثابت کرنے کے لیے برہمن (یعنی دماغ) پر چھوڑ دینا ہے، اس لیےان کے مابین تضاد اگر پیدا ہو بھی جائے تو برہمن کا فرمان افضل ہے۔
آپ نے تو مجھے چانکیہ چانکیہ اور”دی پرِنس” کےخالق نکولو میکاولی کے پولیٹیکل فلسفہ کی تعلیمات سے یکسر غیر آگاہ ہی سمجھ لیا۔ لیکن یہاں ہم ایک ملک یا قوم کی بات نہیں کر رہے ہیں کہ ان دو ہندوی اور اطالوی بزرگوں کو گواہوں کے کٹہڑے میں لا کر کھڑا کر دیا جائے۔ یہاں تو انسانی جسم کا بکھیڑا کھول کر بیٹھے ہوئے ہیں ہم دونوں !
تو ، چلیں، انسانی جسم کی بات کریں
سیل سے بات کا آغاز کرتے ہیں۔ اسے اردو میں خلیہ کہا جاتا ہے۔ ہر خلیہ لحمی تاگوں پر مشتمل ہوتا ہے، جنہیں کروموسومز کہا جاتا ہے۔ بالکل جیسے درخت کی شاخیں ہوں اور جس طرح درخت کی شاخوں سے پھل لٹک رہے ہوتے
ہیں اس طرح کروموسومز کی شاخوں سے جینز لٹکتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔ ہر زندہ شے، درخت،پرندے، حیوان اور انسان ان جینز کو اپنی آنے والی نسلوں کو منتقل کرتا ہے۔ حیاتیات کے عالموں کے مطابق پہلے جس طرح مادہ کی کائنات میں پہلے صرف ’پارٹیکلز‘ تھے، اسی طرح ’’زندگی‘‘ کی کائنات سے پہلے صرف پرکاریوٹس تھے ، جن کا کوئی مرکزہ نہیںتھا۔ تب خوراک کے حوالے سے ایک نیا مرکزہ پیدا ہوا جسے ڈی این اے D.N.A. کہا گیا۔ اب اگر خلیہ کو ایک آزاد اکائی یعنی ذی روح متصور کر لیا جائے تو اس میں ڈی این اے کو ’’دماغ‘‘ کی حیثیت حاصل ہے جب کہ "مائکو کانڈریا” یعنی پمپنگ سسٹم (دل اور پھیپھڑے وغیرہ) اور Cilia جو ایک چوکیدار کی طرح ہے، اس دماغ کی ہدایات پر چلتے ہیں۔ گویا ایک ہی خلیہ میں برہمن (حکم صادر فرمانے والا)، کشتری (اپنی طاقت یعنی ’’باہو بل‘‘ یا بازو کی قوت) سے اس حکم کو بجا لانے والا اور شودر (یعنی نیچ کام کرنے والے اعضا، ہاتھ ، پائوں، فضلہ خارج کرنے کے سوراخ اور دوسرے ) سب اکٹھے رہتے ہیں۔
گویا برہمن مہاراج (دماغ) اپنی معطر تنہائی کے اونچے مندر میں براجمان ہے اور چونکہ یہ شودر سے کوئی براہ راست تعلق نہیں رکھنا چاہتا ، اس لئے وہ دل یعنی کشتری کی وساطت سے اپنے احکام اُن شودروں یعنی ہاتھ پائونں وغیرہ تک پہنچاتا ہے۔
لیجیے، اب معاملہ طے ہو گیا۔ حالیہ صورتِ حال میں دل اور دماغ شاید ہم دونوں میں ہی موجود ہیں۔ اردو شاعری میں ، خصوصی طور پر صنف ِ نظم میں ، یہ خاکسار، جنیئو پہنے ہوئے اور ُمنڈے ہوئے سر پر ایک لمبی چوٹی رکھے ہوئے، وہ برہمن ہے جس کا نام’’ دماغ ‘‘ہے۔ اور آپ (اگر برا نہ مانیں تو) وہ کھشتری ہیں، جو نظم کے نام کی ساکھ بچانے کے لیے روایتی شاعری کے خلاف عموما ً اور صنف ِ غزل کے خلاف خصوصاً تلوار اٹھائے ہوئے مرنے مارنے کو تیار رہتا ہے۔ آپ کا اسم ِ خاص ’’دل‘‘ ہے۔
۰۰۰۰۰
.
…Chanakya
The Prince
Nicolo Machiavelli.
cell
Chromosomes
Genes
particles
Prokaryotes
Mitochondria
Cilia

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے