شبِ فراق خیالِ وصال کم کم ہے
یہ اور بات طبیعت بحال کم کم ہے
جو ایک رسم چلی تھی مزاج پُرسی کی
کبھی بہت تھی مگراب کے سال کم کم ہے
نظرکے پاس مگر دل سے دُور تھا ایسا
بچھڑنے والاہے لیکن ملال کم کم ہے
بس اپنی دُھن میں برستاہے برسے ہی جائے
اُجڑنے والے دلوں کا خیال کم کم ہے
لواب توکھُل گئی خوش قامتیٔ یاراں بھی
کہ بولتے توسبھی ہیں کمال کم کم ہے
بچھڑکے مجھ سے وہ کھوبیٹھا تازگی ناصر
جمیل اب بھی ہے لیکن جمال کم کم ہے