چلتی رہی ہوں ہجر میں آنچل سنبھال کے
روتی رہی ہے آنکھ بھی کاجل سنبھال کے
رستہ طویل ہوتا گیا تیری سمت کا
چلتی رہی ہوںمیں بھی تو پائل سنبھال کے
کب تک میں جھیل بن کے کناروں کاساتھ دوں
پلکوں پہ تیرے خواب کا بادل سنبھال کے
لوٹا تو اس کے ہاتھ میں دریا کی ریت تھی
رکھی تھی میں نے رخت میں چھاگل سنبھال کے
اس کو مرے وجود سے فرصت نہ مل سکے
بٹوے میں اس کے رکھ دیا صندل سنبھال کے