غزل

غزل : شاہد جان

شاہد جان

میں خواب رستوں پہ سوچ قدموں سے چل رہا ہوں
میں ایسا ایندھن کہ اپنی گرمی سے جل رہا ہوں

میں اک اجالا ہوں جس کو ظلمت نگل رہی ہے
میں آس سورج اداس دھرتی میں ڈھل رہا ہوں

ہو کوئی برکھا جو میری پیاسوں کو آب کر دے
میں تپتے صحراؤں کے سرابوں میں پل رہا ہوں

بسی ہے سانسوں میں اب بھی اس کے بدن کی خوشبو
اگرچہ پہلو میں اس کے بس ایک پل رہا ہوں

نقاب چہرے سے جھانکتی وہ بھنور نگاہیں
میں ان کے گھیروں میں گھر کے شاہد مچل رہا ہوں

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں