دردِ فرقت کی یہ تاثیر کہاں تک پہنچی
تم جہاں تھے مری آواز وہاں تک پہنچی
عشق کی آگ جو اک خاص تپاں تک پہنچی
کیوں نہ فریاد مری کوچہِ جاں تک پہنچی
وحشتِ دل جو لیے کوچہِ دلدار گئی
کہ بھلائی بھی مری میرے زیاں تک پہنچی
لاکھ اے دوست بہانے تو بنا اب کیا ہے
دل کی آواز تھی جو تیری زباں تک پہنچی
حسرتِ دید لیے میں تری پھرتا ہوں یہاں
اب تو یادوں کی خلش چشمِ رواں تک پہنچی
پھر بھی آئے نہیں تم دیکھنے کون آیا ہے
دل کی حالت جو مری دردِ فغاں تک پہنچی
آپ کہتے تھے کہ دل جاں سے فقط تیرے ہیں
بات پھر کیسے یہاں آہ فغاں تک پہنچی
کس نے ارشدؔ انہیں انجان بنا رکھا ہے
فاصلے بڑھتے گئے بات کہاں تک پہنچی
مرزاخان ارشدؔ شمس آبادی