پاس رہتے رہتے کیسے ہم جدا ہوتے گئے
دیکھتے ہی دیکھتے پھر نا رسا ہوتے گئے
آنکھ بہتے پانیوں میں اک دیا بن کر رہی
بھید سارے ایک دریا سے جدا ہوتے گئے
پہلے شکوہ کر رہے تھے ہر گھڑی تم سے نیا
پھر ہوا ایسے کہ خود سے ہم خفا ہوتے گئے
چند گھڑیوں کے لیے دل کا وہ مہماں جو ہوا
سب در و دیوار گھر کے خوش نما ہوتے گئے
یہ جو نیلم، یہ جو ہیرے، انگلیوں میں پہنے ہیں
راہ زن تھے کس طرح یہ رہنما ہوتے گئے
دے رہے تھے درد ہم اک دوسرے کو ساتھ ساتھ
ساتھ ساتھ اک دوسرے کی ہم دوا ہوتے گئے
ہم جو ہاتھوں کی لکیریں پڑھ رہے تھے ایک دن
ایک دن اک دوسرے کے نقش پا ہوتے گئے
بے نشاں تھے اس سے پہلے، عشق بھی خاموش تھا
ایک نقطے کی صدا پر دائرہ ہوتے گئے
سیدھے سادے لفظ کتنی معتبر تھے اے غزل
سابقوں سے، لاحقوں سے آشنا ہوتے گئے