غزل

غزل : عبدالباسط صائم

ایسا نہیں کہ ہجر نے مارا نہیں ہوا
یوں ہے کہ دشتِ غم میں گزارہ نہیں ہوا

مرشد تم ایسے شخص کو کہتے ہو کس طرح
اک پل بھی جس نے دل میں گزارا نہیں ہوا

منزل پہ آن کر بھی ۔۔۔ مقدر تو دیکھئے
کندھوں سے ہم نے بوجھ اتارا نہیں ہوا

اک بات مشترک ہے خدا اور عشق میں
تھا بھی ہمارا پھر بھی ہمارا نہیں ہوا

پیارے! غرور کرتے ہوئے سوچنا ضرور
ہے کون جو زمین کو پیارا نہیں ہوا

بچپن میں چاند کہتی تھی چاہت سے جس کو ماں
خود اس کے گھر میں پیدا ستارا نہیں ہوا

کھائے ہیں ہم نے عشق میں دھوکے ہزارہا
صائم کمال یہ ہے خسارہ نہیں ہوا

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں