بتِ کافر کو اب دیکھا نہ جائے
مثالی حسن ہے اترا نہ جائے
محبت کی وہ آہٹ پا نہ جائے
بلانے پر وہ میرے آ نہ جائے
جو خوابوں اور خیالوں میں بسا ہے
گھڑی بھر کیوں اسے سوچا نہ جائے
ہزاروں بار سوچا تھا بھلا دوں
ارادہ پر یونہی بدلا نہ جائے
مری سوچوں کا محور بس وہی ہے
بھلانے پر اسے بھولا نہ جائے
کرے ہے رد بلائیں سر کا صدقہ
یہ دھڑکا بھی ہے کوئی کھا نہ جائے
خرامِ ناز سے وہ یوں چلے ہے
صبا چلتے کہیں ، شرما نہ جائے