غزل

غزل : سعید اشعر

دھندلا دھندلا راستہ، جلتا بجھتا دیپ
بڑھنے لگا ہے فاصلہ، جلتا بجھتا دیپ

چاروں جانب تیرگی، ہر سو پھیلا دشت
بھٹک گیا ہے قافلہ، جلتا بجھتا دیپ

سب بیٹھے تھے ایک جا، قصہ گو کے پاس
ہو گیا کوئی لاپتہ، جلتا بجھتا دیپ

آئی تھی کہیں دور سے، جانے کس کی چیخ
تیز ہوا کا سلسلہ، جلتا بجھتا دیپ

وقت تھا آدھی رات کا، کمرے کی دیوار
گرنے کا ہوا واقعہ، جلتا بجھتا دیپ

دونوں میرے ساتھ ہیں، دونوں میرے خاص
خاموشی کا دائرہ، جلتا بجھتا دیپ

رات کا کوئی ہے پہر، سناٹے کا شور
اس کی نظر کا زاویہ، جلتا بجھتا دیپ

خیمہ خالی ہو گیا، دیکھ رہے تھے لوگ
قربانی کا مرحلہ، جلتا بجھتا دیپ

دونوں تیرے سامنے، کاغذ پر موجود
تیز ہوا کا حوصلہ، جلتا بجھتا دیپ

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں