غزل

غزل : ثمینہ سید


ثمینہ سید
ذرا بارش برستی ہے شگوفے    جاگ    اٹھتے ہیں
کئی رنگوں کی خوشبو سے دریچے جاگ اٹھتے ہیں
ابھی تک پاوُں کی آہٹ سےیہ مٹی شناسا ہے
تمہارے ساتھ چلتی ہوں تورستے جاگ اٹھتے ہیں
کچھ ایسے روشنی دل میں اترتی    ہے    قرینے سے
بہت امکاں تیرے وعدوں کے صدقے جاگ اٹھتے ہیں
کبھی ایسے بھی ہوتا ہے یو نہی بیٹھے بٹھائے ہی
میری آنکھوں میں دریاوُں کے دھارے جاگ اٹھتے ہیں
ثمینہ میں تو لفظوں کو فقط لکھتی ہوں کاغذ پر
تو پھر لفظوں میں یہ کیسے شرارے جاگ اٹھتے ہیں

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں