ثمینہ سید
ذرا بارش برستی ہے شگوفے جاگ اٹھتے ہیں
کئی رنگوں کی خوشبو سے دریچے جاگ اٹھتے ہیں
ابھی تک پاوُں کی آہٹ سےیہ مٹی شناسا ہے
تمہارے ساتھ چلتی ہوں تورستے جاگ اٹھتے ہیں
کچھ ایسے روشنی دل میں اترتی ہے قرینے سے
بہت امکاں تیرے وعدوں کے صدقے جاگ اٹھتے ہیں
کبھی ایسے بھی ہوتا ہے یو نہی بیٹھے بٹھائے ہی
میری آنکھوں میں دریاوُں کے دھارے جاگ اٹھتے ہیں
ثمینہ میں تو لفظوں کو فقط لکھتی ہوں کاغذ پر
تو پھر لفظوں میں یہ کیسے شرارے جاگ اٹھتے ہیں