غزل

رقصاں ہے منڈیر پر کبوتر : رئیس امروہوی

رئیس امروہوی

رئیس امروہوی
رقصاں ہے منڈیر پر کبوتر
دیوار سی گر رہی ہے دل پر
ٹہنی پہ خموش اک پرندہ
ماضی کے الٹ رہا ہے دفتر
اڑتے ہیں ہوا کے سمت ذرے
یادوں کے چلے ہیں لاؤ لشکر
پیڑوں کے گھنے مہیب سائے
یہ کون ہے مجھ پہ حملہ آور
پتوں میں جھپک رہی ہیں آنکھیں
شاخوں میں چمک رہے ہیں خنجر
یہ کون قریب آ رہا ہے
خود میرے ہی نقشِ پا پہ چل کر
یہ کون سہما رہا ہے مجھے
بیٹھا ہوا ہے چپ مرے برابر
یہ کس کا تنفسِ پُر اسرار
یہ کس کا تبسم فسوں گر
اک کرب سا روح پر ہے طاری
اک کیف سا چھا رہا ہے دل پر

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں