بک شیلف

ناسٹلجیا از سلمان باسط …تبصرہ: شازیہ مفتی

شازیہ مفتی
شازیہ مفتی
کوئی تصویر بھی نہیں باقی
جن میں ہم ساتھ ساتھ ہوتے تھے
سارے لمحے بھی ہوگئے ماضی
جن میں ہم ساتھ ساتھ ہنستے تھے
وہ گھروندے کبھی کے خواب ہوئے
جن کے ہم سپنے مل کے دیکھتے تھے
اب نہ باقی ہیں پیڑ آم کے وہ
جن پہ ساون کے جھولے جھولتے تھے
اب تو احساس ہے زیاں کا فقط
اور یادیں ہیں بیتے لمحوں کی
چائے کی پیالی میں چمچ ہلا کر پرچ میں رکھا ۔ شرقی کھڑکی کے پردے ہٹائے ۔ ابھرتے سورج کی روشنی خنک کمرے میں سنہرا سارنگ بکھیر رہی تھی۔ ایک کرن میز پر رکھی سیاہ جلد والی کتاب پر جا رکی اور وہاں سے منعکس ہوکر دیوار پر قوس قزح کی ست رنگی کمان کی طرح پھیل گئی ۔ سرورق کی اداسی سے کمرہ لبالب بھر گیا۔ ماضی کے دروازے کھولتے شخص کی کسی باکمال مصور ہاتھوں سے بنی تصویر نے سمجھادیا” بیتی ہوئ گلیوں سے پھر سے گزرنا ہوگا”
” نوسٹلجیا” ملی تھی تو ہاتھ میں تھام کر اِس سے وعدہ کیا تھا ۔
"چھٹیوں میں گاوں ساتھ لے جاونگی اور وہاں کبھی بانسوں والے ایکٹروں کے ساتھ والی چھوٹی نہر کنارے ، کبھی آم اور جامن اناروں کی چھاوں میں ۔ کبھی موروں کبوتروں کے درمیان اور کبھی چھت پر سے چاروں طرف بنے قدرت کے قالین کا نظارہ کرتے ہوئے پڑھونگی ۔”
کتاب پر گرد پوش چڑھایا ، چائے کی بھاپ اڑاتی پیالی کے ساتھ پڑھنا شروع کیا ورق پلٹتی گئی سورج چڑھتا گیا۔
چند گھنٹوں میں شاید چند صفحات کی قراءت بمشکل کی ۔
اصل میں کڑوی کسیلی دوائیں ، شربت اور معجون بہ امر مجبوری نگلنے پڑتے ہیں ۔ پھر کئ کے ساتھ کچھ میٹھا کھانا پڑتا ہے پھر بھی کئ ایک الرجی کرجاتی ہیں ۔اپھارہ ہوجاتا ہے اور تجویز کردہ کا گلا دبانے کی خواہش اٹھتی ہے کئ دلیر مریض تو طبیب کو عدالت میں گھسیٹے پھرتے ہیں
یہی حال کڑوی کسیلی بدمزہ تحریر کا ہے ۔
لیکن ایک اچھی تحریر کو مزیدار مشروب کی طرح جرعہ جرعہ کرکے پیا جاتا ہے ۔ مصرعوں کی بنت ، زبان وبیان کی چاشنی ، کہانی اور کہانی کے اندر چھپی حقیقتیں پرت پرت کھلتی جاتی ہیں ۔ سکون ، توجہ اور یک سوئ سے ورق ورق الٹنے پر خزینے حاصل ہوتے ہیں ۔
” نوسٹلجیا ” نصاب کی کتاب نہیں جو امتحانی تلوار کے خوف سے سہمے بچے کی طرح رات بھر میں پڑھ ڈالتی ۔ تقریبا ً پچاس دن میں اس کے سحر میں مبتلا رہی ۔ ایک نشست میں چند صفحات یا شاید چند برس ہی آگے بڑھ سکی ۔ سب سے پہلے تو اردو زبان کی سلاست اور چاشنی بار بار پڑھنے پر مجبور کرتی رہی ۔ پھر ذومعنویت نے الگ مزہ دیا ۔ کردار جیتے جاگتے آس پاس پھرتے رہے ۔ منظر نگاری اس درجہ کمال کی ہے کہ جیسے ہر منظر ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔ مجھے تو سلمان باسط کے نوسٹلجیا نے نوسٹلجیک کردیا ۔ بہت سی بھولی ہوئ یا شاید شعوری کوششوں سے بھلائ یادوں نے یلغار کردی ۔
دسمبر کی ٹھٹھری ہوئ وہ رات جب سب اہل دل پاکستانیوں کے گھروں میں ماتم بپا تھے ۔ امی جان بتاتی ہیں میرے والد صاحب بس یہی دہرائے جاتے تھے ” ہائے ہمارا بازو کٹ گیا ہائے ہم دو لخت ہوگئے "
ایک دروازہ کھلنے پر قسمت کے عطاء کیے اکلاپے ، بڑھاپے اور معذوری کو صبر وشکر سے جھیلتی کوئ باہمت خاتون ملیں جو مجھے اپنے آس پاس دل اور خون کے رشتوں سے جڑی بہت سی بیبیوں کی یاد دلاگئیں
جامن کے ٹہنے پر بیٹھا بچہ ، نہر میں پیراکی کے مزے لیتا ٹین ایجر ، ریل، تانگے ، بس میں سفر کرتا لہلہاتے کھیتوں اور شاداب سرزمینوں کا حال سناتا ۔ گورنمنٹ کالج ( جسے بچپن میں یا بچپنے میں بیسٹ کا کاسل کہتی تھی ) کی راہداریوں ، ہری بھری روشوں ،کمروں اور ہاسٹلوں کی سیر کراتا ۔ اپنے ساتھیوں اور استادوں سے ملاقات کراتا راوین ۔ بردبار اور متین کہانی کار جس کی تحریر سے اس کی گھٹی میں پڑی بزرگوں ، والدین ، بھائ ، اقربا ، اور دوست احباب کے لیے بے پایاں محبت چھلکتی ہے ۔ غلط فیصلوں سے ہونے والی وقتی ناکامی کے دکھ سے گزرنے اور اپنے لیے کیے فیصلے کو درست ثابت کرتا لڑکا ۔ دوستیاں نبھاتا لیکن راہ راست پر چلنے والا نوسٹلجیا پڑھنے والے کو ساتھ لیے جاتا ہے ۔
” میری تو ساری ہی غلطیاں ہیں ” سن کر صرف میاں جی ہی جذباتی نہ ہوئے میرے بھی رونگٹے کھڑے ہوگئے” ہائے میری تو خود بس غلطیاں ہی غلطیاں ہیں "۔
کرنٹ مار نے والا ریڈیو اب بھی میرے پرانے گھر میں کہیں رکھا ہے ۔ شہر قصبہ گاوں کوئی بھی ہو ۔بقول کسے ” نام میں کیا رکھا ہے ” اس مٹی کی مہک یادوں میں بسی رہتی ہے ۔ استاد زندگی کے کسی بھی مرحلے پر کتنے ہی کم یا زیادہ وقت کے لیے ملے ہوں ان کا پڑھایا لفظ لفظ دم آخیر تک یاد رہتا ہے ۔ دوست سنگی ساتھی ہمسائے مددگار سب ہی اپنا اپنا کردار ادا کر کے اور کہیں اور چلے جاتے ہیں اور سرمایہ رہ جاتی ہیں رنگ برنگی یادیں ۔ ۔ . . . . . . . . . . . .
آج نوسٹلجیا میری کتابوں کی الماری کے گنجینہء خاص میں شامل ہے اور میں ایک قاری کی اس بے چینی اور تجسس سے گزر رہی ہوں جو باقی آئندہ کے انتظار میں ہو ۔ سلمان باسط مبارک باد قبول فرمائیے اور جلدی سے بتائیے
” پھر کیا ہوا”؟
شازیہ مفتی

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

بک شیلف

سیدہ فرح شاہ کا شعری مجموعہ " قیاس "

  • جولائی 14, 2019
    تبصرہ نگار ۔  پروفیسر يوسف خالد سیدہ فرح شاہ کا شعری مجموعہ ” قیاس ” انحراف پبلیکیشنز لاہور،اسلام
بک شیلف خیال نامہ

وفیات اہل قلم خیبرپختونخوا

  • جولائی 16, 2019
تبصرہ : خورشیدربانی بقول معروف شاعر اور محقق خالد مصطفیٰ،ڈاکٹر منیر احمد سلیچ کوپاکستان میں وفیات نگاری کے امام کا