ایسی کہانی قارئین کے سامنے پیش کرنا جو سیدھے اور سادے اُسلوب کی حامل ہو اور حقیقی زندگی کے قریب تر ہو، بہت آسان ہے لیکن علامتی اور تجریدی انداز بیان جہاں، قاری کو متن سے کہانی دریافت کرنا پڑے ،علامتوں اوراستعاروں کے عقب میں پنہاں خیالات ، احساسات اور جذبات کو کرید کر سامنے لانا پڑے اور پُر پیچ بیانیے کو معرض تفہیم میں لانے کے لیے ذہنی مشق سے گزرنا پڑے،عموماً ناپسندیدہ اور بُری تحریر خیال کی جاتی ہے۔خالد جاوید کا ناول "موت کی کتاب ” بھی ایسا ہی ناول ہے جو عام قاری کے لیے مبہم ، اکتاہٹ سے بھر پور اورپیچیدہ بیانیے کا حامل ہے جس کو پڑھ کرقاری نہ تو حیرت زدہ ہوتا ہے اور نہ ہی وہ کسی خاص بہجت و سرور کے عمل سے گزرتا ہے ۔متلی ،اکتاہٹ،احساسِ تنہائی اور افسردگی ،یہ وہ کیفیات ہیں جو اس ناول کی پڑھت کے بعد قاری کا پیچھا کرتی ہیں اور آپ تادیر اس کے چنگل سے آزادی حاصل نہیں کر سکتے ۔
"موت کی کتاب ” میں ناول نگار نے شعوری کوشش سے حقائق کی منطقی ترتیب سے گریز کرتے ہوئے علامتی اور استعاراتی اسلوب کو اپنایا ہے۔ ناول کے بیانیے کو اس طرح تشکیل دیا گیاہےکہ کہانی خود بخود نمودار نہیں ہوتی بلکہ کھوجنا پڑتی ہے اور اس کھوج میں قاری کی سمت درست نہ ہو تو خود اس کے گم ہوجانے کا خدشہ ،ہمہ وقت موجود رہتا ہے۔ناول کے پلاٹ کی بُنت کچھ اس طرح ہے کہ علامتوں کے ادراک کے لیے ناول کے متن کی پہلی قرات ناکافی ثابت ہوتی ہے۔ناول کےاسرارورموزکو گرفت میں لینے کے لیے متن کو بار بار پڑھنا پڑتا ۔اس کے تشبیہی اور استعاراتی نظام میں پوشیدہ خیالات کوطشت از بام لانے کے لیے،عمیق قرات اور حد درجہ ارتکاز کی ضرورت ہے ۔اس پر تبصرہ کرتے ہوئے شمس الرحمان فاروقی نے لکھا تھا کہ "اس کو پڑھنے اور برداشت کرنے کے لیے ہمیں ادب اور افسانے کے کئی مروجہ تصورات کو پشِ پُشت ڈالنا ہوگا”فاروقی کا مذکورہ قول ناول کی قرات کے دوران ،صائب ہونےکا بارہا یقین دلاتا ہے۔کہانی ناول کے مرکزی کردار کے توسل سے بیان کی گئی ہےجو جنسی جنون،مرگی، آتشک،بے خوابی اور وحشت میں مبتلا ہے۔مرکزی کردار کی ماں مراثن ہےاور اس کا باپ زمین دار گھرانے سے تعلق رکھتا ہے۔ناول میں اسے شہوت پرست اور جنسی کج روی کا شکار دکھایا گیا ہے۔وہ اپنے بیٹے سے نفرت کرتا ہے کیوں کہ اس کا خیال ہے کہ وہ اس کی اولاد نہیں ہے۔اس کی بیوی نے اسے ایک فوجی کے نطفے سے پیدا کیا ہے۔وہ بیٹے اور بیوی کو بار بار تشدد کا نشانہ بناتا ہے۔بیٹے اور باپ کے درمیان نفرت کی دیوار کھڑی ہے جو انھیں قریب آنے سے دور رکھتی ہے۔باپ نے بیٹے کو پہلی بار اس وقت تشدد کا نشانہ بنایا تھا جب وہ چھت پر اپنے سے بڑی عمر کی لڑکی کو جنسی اشارے کر رہا تھا ۔یہ اس نے اس لیے کیا تھا تاکہ اس کی معاشرے میں ساکھ قائم رہے۔گھریلو جھگڑوں کے باعث اس کی ماں گھر چھوڑ کر چلی جاتی ہے۔اس کے باپ کے رویّے میں جزوی تبدیلی رونما ہوتی ہے ۔اس کا رویّہ اب بھی شفیق باپ والا نہیں ہے۔جب مرکزی کردار کی بد فعلیاں حد سے بڑھنے لگتی ہیں تو تعویز گنڈے کی جانب توجہ مبذول ہوتی ہے لیکن اس سے بھی افاقہ نہیں ہوتا تواس کو شادی کے بندھن میں باندھ دیا جاتا ہے۔مرکزی کردار کی وحشت اور جنون میں پھر بھی کوئی فرق نہیں پڑتا تو اسے پاگل خانے بھیج دیا جاتا ہے۔پاگل خانے میں اس کا برقی رو سے علاج کیا جاتا ہے۔برقی رو کے جھٹکوں کے دوران اسے اس منظر کا انکشاف ہوتا ہے جب وہ ماں کے پیٹ میں تھا اور اس پیدایش کے دن قریب تھے اور اس کے باپ نے جنسی آسودگی حاصل کرنے کے لیے اس کی ماں کو تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔اس مباشرت اور تشدد کے نتیجے میں اس کے سر میں چوٹ آئی تھی اور اس کا سر ایک طرف سے پچک جاتا ہے۔مباشرت کے اس عمل کا بیان ناول نگار نے یوں بیان کیا ہے:
"اورتب یکایک میرے کمزور سر پر ایک وزنی بھیانک ،سیاہ اورفحش ٹھوکر پڑتی ہے۔میں ناقابلِ برداشت درد کا شکارہو کر اندھیرے میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتا ہوں ،میرا پورا سر کیچڑ ،خون اورمادہ منویہ سے گیلا ہوگیا، بدبو اورتکلیف کی شدت سے میں سکتے میں آگیا ہوں ۔مجھے چکر آرہے ہیں ،مگراس دھمک کے صدمے سے میں ہل جل بھی نہیں سکتا۔اب تو میں رو بھی نہیں سکتا۔میں رو نہیں پا رہا ہوں۔اپنا ہوش کھو رہا ہوں،میں مر رہا ہوں۔نہیں میں یہیں اسی اندھے مقام سے ہوش سنبھال رہا ہوں۔اپنی ہمزاد خود کُشی کو میں نے اندھیرے کی اس دیوارسے دریافت کیااور اسی لمحے سےاسے اپنے شعور میں شامل کیا”(موت کی کتاب،ص:120)
پورے ناول میں خود کشی کردار کی نفسیاتی کشمکش کا لازمی جزو ہے ۔وہ اس کا ارتکاب کرنا چاہتا ہے لیکن کر نہیں پاتا۔ وہ باپ کو قتل کرنا چاہتاہے لیکن وہ کر نہیں پاتا۔اسی تذبذب میں پہلے ورق سے لے کر آخری ورق تک ناول آگے بڑھتا رہتا ہے۔بیانیے کا استعاراتی اور علامتی انداز قاری کو انور سجاد کے ناول "خوشیوں کے باغ” کی یاد دلاتا ہے۔جب کہ مایوسی ،تنہائی اور خود کشی کے اظہار نے”موت کی کتاب”کو ایرانی فکشن نگارصادق ہدایت کے ناول "بوف کور”کے قریب تر کر دیا ہے۔مذکورہ موضوعات کی پیش کش کی بنیاد پر صادق ہدایت فارسی ادب میں قنوطیت کا بانی خیال کیا جاتا ہے۔جب معاشرہ سماجی،سیاسی، معاشی اور فکری بحرانوں کا شکار ہو تو ادیب سےگل و بلبل اور باغ و بہار کے استعاروں کی امید قائم کرنا عبث ہے۔یہی وجہ ہے کہ ” موت کی کتاب” بھی معاصر عہد کی گمبھیر صورتِ حال کے خلاف ایک طرح کا ردِ عمل ہے۔ذہن میں رہے صادق ہدایت نے "بوف کور” بمبئی قیام کے دوران تحریر کیا تھا۔خالد جاوید نےبھی صادق ہدایت کے مانند اخلاقی اقدار کی بے قدری، پژ مردگی ،مایوسی اور نیہلزم کے فلسفے پر مذکورہ ناول کی بنیادیں اُستوار کرنے کی کوشش کی ہے۔ان موضوعات کو پیش کرنے میں اس نے ابہام کا سہارا لیا ہے ،کوئی منظر واضح نہیں،کوئی نظارا دھندلاہٹ سے عاری نہیں اور کوئی خیال شفافیت کا حامل نہیں ۔ متن میں ابہام ہی ابہام اور پیچیدگی ہی پیچیدگی موجود ہے۔ بین السطور خیالات تک رسائی کے لیےحد درجے کا ارتکاز ضروری ہے۔
ناول کے مقدمے میں اس بات کا اظہار کیا گیا ہے کہ سیو کرگی فرٹ یونیورسٹی ،میں آثارِ قدیمہ کے ماہرپروفیسر والٹر شلر کومشرقِ بعید کےایک خطے” گرگٹہ تل ماس "کے کھنڈرات کی کھدائی میں، ناول کا مسودہ اتفاقیہ طور پر ملا تھا۔ماضی میں ہائیڈرو الیکٹرک ڈیم بنوانے کی غرض سے اس شہر کو پانی میں ڈبو دیا گیا تھا۔بعد ازاں جب ماحولیاتی توازن بگڑ جانے کی وجہ سے ندیاں سوکھ گئیں تویہ بجلی گھربے کار ہو کر رہ گیا۔اسے مسمار کرنےکے بعد نیچے سے کھنڈرات کی صورت میں دریا بُرد شہردوسو برس بعد پھر سے نمودار ہوا۔پروفیسر والٹر شلرکو ناول کا مخطوطہ ان ہی کھنڈرات میں شکستہ پتھر کے نیچےسے دستیاب ہوا۔اس مخطوطے پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ:
"دس دن تک گرگٹہ تل ماس میں ٹھہرنے کے بعدہماری ٹیم اپنا کام مکمل کر کے واپس آگئی اور اس نے ادارے کو اپنی رپورٹ پیش کر دی جس کی رو سےاب ان دو ملٹی نیشنل کمپنیوں کو اس زمین پردنیا کا سب سے بڑا اسٹیل یونٹ قائم کرنے کی اجازت مل سکتی تھی کیوں کہ”گرگٹہ تل ماس ” میں ہمیں کوئی ایسی شےیا ملبے میں دبی ہوئی عمارت نہیں ملی جو آثارِ قدیمہ کے اعتبار سےکسی اہمیت کی حامل ہو۔جہاں تک پاگل خانےکے کھنڈرات کا سوال ہے تو اس کی بھلا کیا تاریخی اہمیت ہو سکتی تھی۔”(موت کی کتاب،ص:12)
پروفیسر کے لیے اس مسودے کی زبان کو پڑھنا ایک چیلنج تھا۔دو سو برس پہلے رائج زبان اب معدوم ہو چکی تھی ، کوششِ بسیار کے بعد آخرِ کار اس نے مذکورہ مسودہ ژاں ہیوگو کو ارسال کیاجس کا شجرہ نسب معروف مستشرق گارساں ژاتاثی سے ملتا تھا۔ایک سال کی محنتِ شاقہ کے بعد وہ مسودے کا مشینی ترجمہ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔اب اس مقصد کے تحت اسے اشاعت کے مرحلے سے گزارا گیا کہ شاید کسی کو” اس زمانے کے انسانوں کےجذباتی،انفرادی یا اجتماعی مسائل اور ان کے دکھ سکھ کا کوئی سراغ حاصل ہو سکے”حیرت انگیز طور پر اس دور کے مسائل اور انسانی کیفیات آج کے دور کے جدید انسان سے مماثل ہیں ۔آج کے دور میں انسانوں کی اموات کا دوسرا بڑا ذریعہ خود کشی بتایا جاتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق سالانہ دس لاکھ افراد خود کشی کے نتیجے میں ہلاک ہوتے ہیں اور دنیا میں ہر تین سیکنڈ میں ایک فرد خودکشی کی کوشش کرتا ہے۔دنیا میں جنگوں ، دہشت گردی اور تشدد کے نتیجے میں اتنی اموات وقوع پذیر نہیں ہوتیں جتنی خودکُشی کے نتیجے میں سامنے آتی ہیں۔خود کشی کے اسباب پر غور کیا جائے تو اس کی بے شماروُجوہات سامنے آتی ہیں جن میں سماجی دباؤ،خود اعتمادی کا فقدان،غربت،گھریلو تشدد،بے عزتی کا خوف،لامتنا ہی خواہشات ،اکیلاپن ،رشتوں اورتعلقات سے جُڑے مسائل ،وجود کا بحران ،جنگی اور جنگ کی وجہ سے رونما ہونے والے تعلقات ، محبت میں ناکامی اور ناخوش گوارشادیاں وغیرہ نمایاں ہیں۔ناول کے مرکزی کردار میں ان وجوہات میں سے بیشتر وجوہات موجود ہیں جو اسے مایوسی کے قعرِ دریا میں دھکیل دیتی ہیں اور وہ خو دکُشی کی آغوش میں استراحت کا خواہاں ہے۔اس لیے کہ اس کے خیال میں زندگی گندگی ، تکلیف ،ناآسودگی ،ملال اور پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں۔اس کےہاں خوشی ،ولولہ،امید اورمسرت کا فقدان ہے۔اس ضمن میں ناول کا ایک اقتباس دیکھیں :
"خوشی جو محبت کرنے اورپانے سے ملتی تھی اور مسرت جو نجات کے راستے پر چلنے سے حاصل ہوئی تھی۔افسوس کہ محبت اورنجات کے راستے ہی تو ہیں جو دکھ میں ڈالتے ہیں۔محبت جو شہوت کا مزہ ہی نہیں لینے دیتی،جو جسم حاصل کرتے وقت روح کو افسردہ کر کے رکھ دیتی ہے،نجات کے ، مکتی کے، بلکہ سارے راستے،کتنے الٹے پلٹےہیں۔وہ ادھر کو نہیں جاتے جدھر کی طرف تیرنما نشان بنا ہوا نظر آتا ہے۔”( موت کی کتاب،ص:49)
مذکورہ ناول کا مرکزی کردار ایسا سیاہ بخت ہےجو پیدایش سے قبل ہی ذلتوں اور اذیتوں کا شکار ہے۔جسمانی اور روحانی ہردو سطح پر وہ صحت مندی اور شانتی سے عاری ہے۔اس کا گھر خلفشار کا شکار ہے۔ باپ ہوس کا شکار اور زوال پذیر جاگیرداری نظام کی اخلاقیات کا علم بردار ہے۔مسلسل بے اطمینانی اور نفسیاتی کیفیات اسے جنون، وحشت اورمایوسی کی جانب لے جاتی ہیں اور وہ خود کُشی سے متعلق سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔رستے ہوئے خون ، پھوڑے پھنسیاں اور غلاظتیں اس کا روز مرہ ہیں۔ان سا ری کیفیات کو ناول نگار نے فوٹو گرافک حقیقت نگاری کی ذیل میں ماہرانہ انداز میں اس طرح پیش کیا ہے کہ ہینری بالزاک اور ایمیلی زولا کا بیانیہ انداز بے ساختہ یاد آجاتا ہے۔خالد جاوید نے یہاں تخلیقی صلاحیتوں اور فنی کمالات کا بھر پور مظاہرہ کیا ہے۔انھوں نے واحد متکلم راوی کی شکل میں ایسا کردار تخلیق کیا ہے جو شیزو فرینیا،پیرا نوئیااور انسومنیا اور اس طرز کے دیگر امراض کا شکار ہےاور اس کے دل و دماغ پر نفرتیں، غیض اور کلبیت کا غلبہ ہے۔بیانیہ میں ان کیفیات کا توازن برقرار رکھنالسانی تفاعل اور ہئیتی نزاکتوں پر عبور رکھنے والا تخلیق کار ہی کر سکتا ہے۔