بک شیلف

سرمایہء زندگی مرتبہ ڈاکٹرغلام اکبر ۔۔۔ ایک تاثر : پروفیسرمجاہدحسین

’’سرمایہ زندگی‘ ‘ادارہ تالیف و ترجمہ پنجاب یونیورسٹی لاہور کے زیرِ اثر شائع ہونے والا فارسی افسانوں کا اردو ترجمہ ہے جسے ڈاکٹر غلام اکبر نے مرتب کیا ہے۔ یہ مجموعہ ۲۰۱۰ء میں منظر عام پر آیا۔ اس کا انتساب ایران و پاکستان کے مشترکہ علمی و ثقافتی ورثے کے نام کیا گیا ہے۔ ۹۰ صفحات پر مشتمل اس مجموعۂ تراجم میں کل گیارہ افسانے شامل ہیں۔ اس مجموعے کے حوالے سے ڈاکٹر اورنگ زیب عالمگیر لکھتے ہیں:
’’زیرِ نظر مجموعہ فارسی کے روایتی طرز کے افسانوں کا مجموعہ ہے جس میں روایتی معاشرے کے سماجی مسائل کو موضوع بنایا گیا ہے۔ یہ مجموعہ ہمیں فارسی افسانے کے اس دور سے واقفیت کا موقع دے گا۔ مجھے یہ توقع بھی ہے کہ اس طرح ان دونوں برادر ملکوں پاکستان اور ایران کے مابین تعلق و اخوت کو مزید مستحکم بنانے میں بھی مدد ملے گی۔ یہ مجموعہ ان دونوں ممالک کے درمیان پائے جانے والے ثقافتی و ادبی تعلق کے نام سے منسوب کیا جا رہا ہے۔ دعا ہے کہ ان دونوں ممالک کے درمیان پائے جانے والے خوشگوار اور برادرانہ تعقلات کو دن دونی رات چوگنی ترقی ملتی رہے۔‘‘۱؎
کسی ایک زبان سے دوسری زبان سے دوسری زبان کے دائرے میں قدم رکھنا کسی دوسری دنیا میں قدم رکھنے کے مترادف ہوتا ہے کیونکہ ہر زبان کا اپنا مزاج اور اپنی ثقافت ہوتی ہے۔ اس کے اپنے قصے اور اپنی کہانیاں ہوتی ہیں، اپنے کردار اور اپنی رسمیں ہوتی ہیں جس کا اس کے اپنے معاشرے میں برتاؤ ہوتا ہے لیکن بنیادی طور پر انسان، قانونِ فطرت کے تحت جنم لیتا ہے۔ اس کا خمیر وہی مٹی اور پانی ہوتا ہے البتہ جغرافیائی اعتبار سے پانی اور مٹی اپنی اپنی تاثیر رکھتے ہیں اور روح، عالم اردواح سے اس میں شامل ہو جاتی ہے۔ لیکن ایک ہی رنگ و نسل کے باوجود لوگوں کے بات کرنے کے انداز مختلف ہوتے ہیں:
سیف اندازِ بیاں بات بدل دیتا ہے
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں
خاص طور پر بات ناول، افسانے یا داستان کی ہو، مرکز انسان، انسانی کردار اور اس کی ثقافت ہوتی ہے۔ وہی وصل کے پرجوش لمحے، وہی جدائی کے محشر، وہی زندگی کے عہد و پیماں، وہی مناظرِ فطرت گردو پیش چلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ افسانوں کی دنیا میں یہی کچھ تو نظر آتا ہے لیکن اندازِ بیاں کی وجہ سے ایک الگ دنیا اپنے محیط کے اندر رہ کر اس مدار میں گھومتی نظر آتی ہے۔ اسی محیط و مدار کو ہم ثقافت کہتے ہیں۔
ڈاکٹر غلام اکبر اِس حوالے سے لکھتے ہیں:
’’برعظیم پاک و ہند کی زبانوں کا مطالعہ کیا جائے تو یہ کافی حد تک گردو نواح کی ثقافتوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے نظر آتی ہیں اور خصوصی طور پر جب فارسی زبان کو دیکھا جائے تو کافی حد تک برعظیم پاک و ہند پر اس کے اثرات دکھائی دیتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ فارسی یہاں تقریباً تین چار سو سال تک سرکاری زبان رہی۔ اگرچہ انگریز حکمرانوں نے کافی عرصہ تک اس سونے کی چڑیا کو زیرِ دام رکھا، مگر دینی اور جغرافیائی حوالے سے ایران اور سرزمینِ پاک و ہند ایک ہی اصل سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس لیے فرہنگ و ثقافت کا باہم نظر آنا تعجب کی بات نہیں۔‘‘۲؎
اس مجموعہ میں جتنے افسانے بھی شامل ہیں تمام مقدار کے لحاظ سے کم اور معیار کے لحاظ سے بے مثال ہیں۔ انتخاب کرنے والوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ تمام اضافے ۸ سے ۱۰ صفحات میں لکھے گئے ہیں۔ بڑے سے بڑا افسانہ ۱۲ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس مجموعے کا کلیدی افسانہ ’سرمایہ زندگی‘ ہے جو دراصل محمد حجازی کی تخلیق ہے، مگر اس کا ترجمہ ڈاکٹر غلام اکبر نے کیا ہے۔ یہ صرف ۶ صفحات پر مشتمل مختصر افسناہ ہے اس کا موضوع ہے اور واحد متکلم صیغہ میں تحریر کیا گیا ہے۔ پری اس افسانے کا مرکزی کردار ہے جس سے راوی کو محیت ہو جاتی ہے اور وہ رشتہ مانگنے کی غرض سے پری کے گھر چلا جاتا ہے جہاں اس کے والد سے ملاقات ہوتی ہے اور راوی پری کے والد سے اعجازِ عشق کی داستان سنتا ہے:
’’میں تمھیں اعجازِ عشق کی داستان سناتا ہوں۔ سردیوں کی رات تھی … بہت تیز برف پڑ رہی تھی … ایک بزرگ بغیر انگیٹھی کے ایک خستہ حال کمرے میں چہل قدمی کر رہا تھا اور وہ اپنی ذات سے برسرِ پیکار تھا … خود کلامی کرتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ میں اس بے سروپا آسمان میں کیوں گھومتا ہوں؟ میں نے جو تکلیفیں اٹھائی ہیں ان کا کیا نتیجہ نکلا؟ مجھ میں ابکسی بات کا حوصلہ نہیں۔‘‘۳؎
راوی کو بتایا جاتا ہے کہ میری ایک گلی میں اس کے والد کو ملی تھی، تب وہ چھوٹی سی تھی۔ اس نے پری کو جوان کیا ہے ابسب کچھ یہی پری ہی ہے۔ عشق ہزار مشکلوں کو آسان کر دیتا ہے، ہاں عشق ہی ہمارے جسم کی حرارت ہے، ہمیں ضرور کسی نہ کسی وجود یا مقصد سے عشق اور وابستگی پیدا کرنی چاہئے تا کہ ہمارا زندہ رہنا بے معنی نہ ہو اور جو شخص عشق کے بغیر بیدار ہوتا ہے ایسے مُردے کی مانند ہے جو قبر سے اٹھ کھڑا ہو، وہ دنیا کو تنگ اور وحشت زدہ نظروں سے دیکھتا ہے۔
پری کا والد راوی سے عشق کی افادیت پر بحث و مباحثہ کرتا ہے اور آخر میں کہتا ہے پری میرا سرمایۂ زندگی ہے اگر تم میرے سرمایۂ زندگی کو لے جاؤ گے تو میں کیسے زندہ رہوں گا؟ آخر میں راوی بابا جی کے گھٹنوں میں بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے ’بابا جی! مجھے اپنی فرزندی میں قبول کر لیں۔‘
’نقاد‘ ایک دلچسپ افسانہ ہے۔ یہ بھی واحد متکلم صیغے میں لکھا گیا ہے۔ راوی ایک ایسے شخص سے ملتا ہے جو نقاد سے دوسروں کی تحریروں پر رائے دیتا ہے اور اس کام کے پیسے وصول کرتا ہے، یعنی پیشہ ور نقاد کہہ لیجئے۔ راوی کا نقاد سے مکالمہ بہت دلچسپ ہے۔ نقاد کے فرائض کے حوالے سے وہ راوی سے مخاطب ہوتا ہے:
’’نقاد کا ہنر بھی درخت کی کانٹ چھانٹ کی طرح ہے لیکن اگر یہ کام ماہر مالی کی بجائے بکری یا بکری کے بچے کے حوالے کر دیں تو نتیجہ برعکس نکلے گا۔ یعنی بکری اپنی ضرورت اور کم فہمی کی وجہ سے پتے، ٹہنیاں اور تنا کھا جاتی ہے، جس کی وجہ سے درخت سوکھ جاتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ بھی ہماری طرح ماہر مالی نہیں رکھتے۔ اگر میری بات مانیں تو اس تحفے کو اپنے بھائیوں کے لئے نہ لے جاؤ، کیونکہ اس کے نقصانات بہت سے ہیں۔‘‘۴؎
راوی نقاد سے اس کی داستانِ زندگی سنتا ہے جو دلچسپی سے خالی نہیں ہے۔ غرضیکہ وہ اسے تنقید کے فن میں آمد کے متعلق بڑی تفصیل سے بتاتا ہے ایک روز راوی جب اسے اپنی تصنیف پر تنقید کرنے اور معاوضہ وصول کرنے کی بات کرتا ہے تو نقاد اسے کہتا ہے میں دوسروں سے تنقید کی اُجرت فی صفحہ تیس فرانک لیتا ہے مگر آپ سے فی صفحہ اجرت ایک سو پچاس فرانک لوں گا۔ جب راوی حیران ہو کر اتنے مہنگے معاوضے کی وجہ پوچھتا ہے تو وہ کہتا ہے:
’’میرے کام کا اپنا طریقِ کار ہے۔ میں تیس فرانک فی صفحہ میں ناواقف لوگوں کو دشمن بنا لیتا ہوں لیکن ایک تمھارے جیسا دوست جو خلوص سے آیا ہے کہ مجھے کئی سال کے المِ تنہائی سے نجات دلائے۔ ایک سو پچاس فرانک فی صفحہ کے حساب سے کم تر دشمن نہیں بنا سکتا۔ اگر آپ میری بات مانیں تو ہر مرتبہ کسی کو دشمن بنانے سے پہلے اچھی طرح سوچ لیں اور اچھی طرح سمجھ لیں کہ کس کو کس قیمت پر دشمن بنا رہے ہیں تا کہ بعد میں نہ پچھتائیں۔‘‘۵؎
’نقاد‘ ایک سبق آموز کہانی ہے۔ اس افسانے میں جو سبق حاصل ہوتا ہے وہ کامیاب زندگی گزارنے کا راز ہے۔
اسی طرح’ خودکشی ‘ محمد حجازی کا دلچسپ افسانہ ہے جس کا ترجمہ ڈاکٹر محمد صابر نے کیا ہے۔ اس افسانے میں بھی ایک اخلاقی سبق ملتا ہے۔ کہانی بہت سادہ سی ہے۔ ایک دوست دوسرے دوست سے خودکشی کا طریقہ پوچھتا ہے، دوسرا دوست بہت حیران ہوتا ہے اور بالآخر خودکشی کا طریقہ بتاتا ہے، مگر اس کے ساتھ ایک شرط رکھتا ہے کہ تم دو دن تک ایسا فیصلہ التوا میں رکھو اور میری باتوں پر عمل کر کے یہ دو دن ان اصولوں کے مطابق گزارو جو میں تمھیں بتاؤں گا۔ کہانی واحد متکلم صیغہ میں لکھی گئی ہے اور بہت سبق آموز ہے۔ ایک دوست کے بتائے ہوئے اصول کے مطابق دوسرا دوست زندگی کے دو دن گزارتا ہے اور خودکشی کے فیصلے کو ترک کر دیتا ہے۔
’سپیرا‘ بہت دلچسپ افسانہ ہے، محمد حجازی کی تخلیق اور ڈاکٹر غلام اکبر کا ترجمہ ہے۔ اس افسانے کا مرکزی کردار ایک عورت کا ہے، جس کے گھر میں ایک دن چور گُھس آتا ہے اور وہ نیچے سٹور میں جاتی ہے تو سانپ دیکھ کر بیہوش ہو جاتی ہے۔ جب ہوش میں آتی ہے تو دیکھتی ہے کہ چور سانپ کو مار چکا ہے اور عورت کو ہوش میں لانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ عورت چور کے اِس امر سے بہت خوش ہوتی ہے اور کہتی ہے جب کبھی ضرورت ہو میرے پاس آکر پیسے لے جایا کرو۔ ایک دفعہ چور ضرورت کی غرض سے پیسے لینے آتا ہے، عورت کے گھر کے ملازم سے کہتا ہے اپنی مالکن سے کہو یاسر سپیرا آیا ہے۔ عورت سمجھ جاتی ہے اور اس کی ضرورت کے پیسے بھیج دیتی ہے۔ دوسری بار جب چور عورت سے پیسے وصول کرنے سپیرا بن کر آتا ہے تو گھر میں ایک تقریب چل رہی ہوتی ہے۔ ایک ماہر نفسیات اس تقریب میں مہنان سے اسے ساری کہانی بیان کی جاتی ہے۔ وہ سپیرے کو گھر میں ملازم رکھنے کا مشورہ دیتا ہے۔ مالکان حیرانی سے وجہ پوچھتے ہیں تو ماہر نفسیات ان الفاظ میں وضاحت کرتا ہے:
’’وہ لوگ جو ایرانیوں کو خراب اور فاسد سمجھتے ہیں اور ایران سے بالکل مایوس ہیں، غلطی پر ہیں۔ ایران کی اہلیت کا درجہ ایسا ہے کہ ایران بارہا اس پر متمکن رہا اور افتخارات کے ان تاریخی میناروں پر اور کوئی ملت نہیں پہنچ سکتی۔ ایرانیوں کو چاہئے، ان مراتب و مقامات سے آگاہ ہوں اور جلد ہی ان تک پہنچنے کی کوشش کریں اور بالآخر کوئی تو ہونا چاہئے جو ان رکاوٹوں کو دور کرے۔ ایک خدا ہے، یعنی ہم خود۔ کیونکہ خدا نے جو ہمیں قوتِ ارادہ عطا کی ہے ہماری اپنی قوت سے زیادہ بخشی ہے۔ اس جواں مرد کی جرأت اور قوت بھی وہی ہے جو اس روز اس نے چوری کے بدلے میں دکھائی اور خدمت اور ایثار کیا۔ میں نے اس کے راستے سے رکاوٹیں ہٹا دیں اور اسے اسی اخلاقی بلندی تک پہنچا دیا۔‘‘۶؎
افسانہ ’ساس کی کہانی‘ بھی بہت دلچسپ ہے۔ ڈاکٹر غلام اکبر نے ترجمہ کیا ہے۔ کہانی واحد متکلم میں لکھی گئی ہے۔ راوی کا دوست ایک شاعرانہ مزاج کا حامل ہے۔ تمام عمر شادی نہیں کرتا اور بالآخر ایک لڑکی اپنے لیے پسند کرتا ہے جو اس کے دوست کے بہت ہی قریبی جاننے والی ہے اور لڑکی کا والد بھی راوی کا دوست ہے، مگر وہ راوی کے دوست کو انکار کر چکا ہے۔
راوی لڑکی کے والدین کو بڑی مشکل سے رشتے کے لئے مناتا ہے مگر جب شاعرانہ طبیعت کا حامل راوی کا دوست لڑکی کی ماں کو دیکھتا ہے تو وہ اپنے شادی کے فیصلے سے انکار ان الفاظ میں کرتا ہے:
’’میں نے لڑکی کابڑھاپا اس کی ماں کی شکل میں دیکھا اور بے زار ہوا، جب لڑکی مسکراتی ہے تو اس کے منہ کا ایک حصہ نیچے آتا ہے۔ ابھی لڑکی جوان بدن ہے، لیکن لڑکی میں، مَیں نے تمام حرکات ماں والی دیکھی ہیں اور مجھے وحشت ہوئی۔ صرف یہ نہ تھا بلکہ تمام اعضاء کی حرکات جو اس کی ماں میں تھیں، وہ تمام کی تمام لڑکی میں نظر آرہی ہیں۔ چونکہ لڑکی ابھی جوان ہے، لیکن جب بوڑھی ہوگی بالکل اپنی ماں کی طرح ہو جائے گی۔ پس چند سال بعد ایسی بوڑھی عورت کے ساتھ زندگی بسر کروں گا۔ البتہ میری غلطی ہے کہ رشتہ مانگنے سے پہلے میں نے لڑکی کی والدہ کو نہ دیکھا۔ اس کے بعد اگر میں نے چاہا کہ شادی کردوں تو پہلے لڑکی کی ماں کو دیکھوں گا … کیا ہی اچھا ہو کہ ہم ہمیشہ ’عاقبتِ کار‘ کو ساس کی صورت دیکھیں‘‘۷
کسی متن کو ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل کرنا ناممکن تو نہیں مشکل ضرور ہے۔ اس کی وجہ تہذیب اور تقاضوں کا میلان ہے۔ ڈاکٹر غلام اکبر نے اس مجموعہ میں شامل گیارہ افسانوں میں سے چھ نے تراجم خود کیے ہیں۔ انھوں نے کمالِ مہارت سے ترجمہ کیا ہے۔ پوری ایرانی ثقافت کی عکاسی کی ہے اور تمام پہلوؤں کو ملحوظِ خاطر رکھا ہے جو ایک اچھے ترجمے کی جان ہوتے ہیں۔ اگر ان افسانوں کا مجموعہ جائزہ پیش کیا جائے تو یہ کہنا بجا ہوگا کہ ان تمام کہانیوں میں اخلاقی سبق موجود ہیں۔ ایرانی کلچر کی نمائندگی عام ملتی ہے اور عام کی بجائے خاص پہلوؤں کو پیش کیا گیا ہے جبکہ ہمارے ہاں ادیبوں اور نقادوں کی ایک بڑی جماعت کا کہنا ہے کہ ادب کا تعلق اصلاح یا اخلاقی سبق فراہم کرنا نہیں ہے۔ میرا خیال ہمارے ادیبوں کا یہ خیال غلط ہے۔ ان افسانوں میں، میں نے دیکھا ہے اسلوب کی دلکشی بھی ہے، موضوع کی انفرادیت بھی ہے، کہانی کی دلچسپی بھی ہے۔ پلاٹ سادہ اور آسان بھی ہے اور سب سے اہم بات انسانی ارتقاء کے لئے کوئی نا کوئی خاص پہلو اِن افسانوں میں آپ کو ضور نظر آئے گا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں اخلاقی فقدان نظر آتا ہے۔ اس کی وجہ بھی شاید ادبی فقدان کے ساتھ ساتھ ادیبوں کا اخلاقی، روحانی ارتقائی سفر کو نظر انداز کرتا ہے۔ یہ بہرحال ’سرمایہ زندگی‘ ایک بہترین مجموعہ ہے، ایک بہترین انتخاب ہے اور بہترین ترجمہ ہے جو اردو ادب میں بہترین افسانہ ہے۔

حوالہ جات

۱۔ ڈاکٹر غلام اکبر، سرمایہ زندگی (مرتب)، لاہور: ادارہ تالیف و ترجمہ پنجاب یونیورسٹی، ۲۰۱۰ء، ص۴
۲۔ ایضاً، ص۷
۳۔ ایضاً، ص۵۸
۴۔ ایضاً، ص۵۱
۵۔ ایضاً، ص۵۵
۶۔ ایضاً، ص۷۲
۷۔ ایضاً، ص۶۸

 

younus khayyal

About Author

2 Comments

  1. بلال حسن

    دسمبر 13, 2020

    زبردست تحریر سر مجاہد 👌

  2. مہر عاصم

    دسمبر 13, 2020

    اعلی

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

بک شیلف

سیدہ فرح شاہ کا شعری مجموعہ " قیاس "

  • جولائی 14, 2019
    تبصرہ نگار ۔  پروفیسر يوسف خالد سیدہ فرح شاہ کا شعری مجموعہ ” قیاس ” انحراف پبلیکیشنز لاہور،اسلام
بک شیلف خیال نامہ

وفیات اہل قلم خیبرپختونخوا

  • جولائی 16, 2019
تبصرہ : خورشیدربانی بقول معروف شاعر اور محقق خالد مصطفیٰ،ڈاکٹر منیر احمد سلیچ کوپاکستان میں وفیات نگاری کے امام کا