افسانہ

کمک : اذلان شاہ

’’پہچانا۔۔۔۔۔۔؟؟‘‘
وہ اچانک کہیں سے نمودار ہوا اوراس کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا۔
اُس کو اس کا اس طرح اچانک آنا اور پوچھنا بالکل بھی اچھا نہیں لگا لیکن پھر بھی اس نے ایک بار غور سے دیکھ کر اُسے پہچاننے کی کوشش ضرور کی ۔وہ کسی طرح بھی اُس کی پہچان میں نہیں آیا۔
’’سوری میں تم کو نہیں جانتا ۔‘‘
’’کیوں نہیں جانتے ؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘
’’مسٹر اپنا اور میرا وقت برباد مت کرو ۔‘‘
’’تم جھوٹ بول رہے ہو ۔۔۔۔۔۔۔تم مجھے جانتے ہو‘‘
’’میں جھوٹ کیوں بولوں گا۔۔۔۔میں تم سے پہلی بار مل رہا ہوں۔اس سے پہلے میں نے تم کو کبھی نہیں دیکھا۔‘‘
’’مجھے اپنی شناخت چاہئے۔۔۔۔۔۔۔ہر قیمت اور ہر صورت ‘‘
’’تو میں کیا کر سکتا ہوں۔‘‘
’’اس شہر میں تمہارے علاوہ مجھے کوئی نہیں جانتا ۔تم ہی مجھے پہچانتے ہو‘‘
’’یہ اچھی زبردستی ہے ۔۔۔۔۔۔میں کہہ چکا ہوں میں تم کو نہیں جانتا ۔‘‘
’’جب میری اور تمہاری پہلی ملاقات ہوئی تھی اس وقت تم نے مجھے پہلی نظر میں پہچان لیا تھا اور آج تو ہماری دوسری ملاقات ہے۔‘‘
’’تمہاری یہ بات تم کو غلط ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ یہ ہماری دوسری ملاقات ہے۔میں پچھلے کئی سالوں سے کسی سے نہیں ملا ۔‘‘
’’ہماری پہلی ملاقات بھی اچانک ہوئی تھی ۔۔۔۔۔میں تم کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے شہر کے بارونق علاقے میں آیا تھا اور ایک دم موسم کے تیور بدل گئے تھے ۔آسمان دیکھتے دیکھتے سیاہ بادلوں سے ڈھک گیا تھا اور اچھا خاصا دن رات میں تبدیل ہو گیا تھا۔‘‘
’’تم اپنی زبان بند نہیں رکھ سکتے ۔‘‘
’’میری بات تو سن لو۔۔۔۔۔۔۔میری پوری بات سن کے تم کو خود بخود یاد آ جائے گا میں کون ہوں ،کہاں سے آیا ہوں اور مجھ کو اپنی پہچان کیوں چاہئے ہے۔‘‘
’’کتنی عجیب بات ہے۔۔۔۔۔۔مجھ سے ملاقات کے حوالے سے تم کو سب کچھ یاد ہے اور اپنے بارے میں کچھ بھی یاد نہیں۔‘‘
’’میرا اپنے بارے میں جاننا کوئی معنی نہیں رکھتا ‘‘
’’مجھے بھی اس سے کوئی مطلب نہیں ہے تم کون ہو؟‘‘
’’میرے پاس وقت بہت کم ہے۔۔۔۔میں نے پہلے ہی بڑی مشکل سے تم کو ڈھونڈا ہے۔مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے ۔‘‘
’’میں تمہاری کوئی مدد نہیں کرسکتا۔۔۔۔۔جس طرح تم اس شہر میں نئے ہو بالکل اسی طرح میں بھی یہاں نیا ہوں۔‘‘
’’تم اس شہر میں نئے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن میرے لیے نئے نہیں ۔۔۔۔جس طرح میں نے تم کو پہچان لیا ہے اسی طرح تم کو بھی مجھے پہچاننا ہوگا۔‘‘
’’جب تم میری پہچان میں آ ہی نہیں رہے تو پھر میں کس طرح تم کو پہچاننے کا دعویٰ کروں۔‘‘
’’یہ کوئی بہت پرانی بات تو نہیں ہے جس کو تم بالکل بھلا بیٹھے ہو۔‘‘
’’مسٹر!زبان سنبھال کے؟۔۔۔۔۔یہ میرا ذاتی معاملہ ہے میں کسی کو یاد رکھوں یا بھلا دوں۔‘‘
’’مجھ پر رحم کھائو۔۔۔۔۔۔۔میں مارا جائوں گا۔اس شہر میں جس کا کوئی جاننے والا نہیں ہوتا اس کو سولی پر لٹکا دیا جاتا ہے۔میں نے بڑی مشکل سے اپنی پہچان ثابت کرنے کے لیے کچھ وقت لیا ہے اور اب تو وہ بھی تقریباً گزر چکا ہے۔‘‘
’’شہر کے حوالے سے تم جو کچھ بتا رہے ہو میں اسے اچھی طرح جانتا ہوں۔مجھے معلوم ہے جس کا کوئی جاننے والا نہیں ہوتا یہ شہر اس سے زندہ رہنے کا حق چھین لیتا ہے۔‘‘
’’ سب جاننے کے باوجود تم میرا ساتھ نہیں دے رہے؟‘‘
’’نہیں دے سکتا میں کسی کا ساتھ؟‘‘
’’کیوں نہیں دے سکتے ؟‘‘
’’تم اپنے ساتھ ساتھ میرا بھی وقت برباد کر رہے ہو۔۔۔۔۔۔۔جائو کسی اورکو ڈھونڈلو جو تم کو تمہاری پہچان دلا سکے۔‘‘
’’ایسا ممکن نہیں ہے‘‘
’’مجھے بھی تو ڈھونڈا ہے‘‘
’’جو مل گیا ہے اسے کسی اور کو ڈھونڈنے میں کیوں گنوا دوں‘‘
’’تم اپنا نہیں دراصل میرا وقت برباد کر رہے ہو۔۔۔۔۔۔اگر تم یہاں سے نہ گئے تو میں خود شہر کے رکھوالوں کو بلا لوں گا اور کسی کو ناحق تنگ کرنے کے جرم میں تم کو سولی پر لٹکا دیا جائے گا۔‘‘
’’مجھے یقین نہیں آرہا تم پہلی ملاقات کے بعد اس قدر بدل چکے ہو۔تم میں ذرا بھی مروت نہیں رہی۔‘‘
’’مجھے اس بات سے سخت چڑ ہے کوئی آئے اور آکرمجھ کو میرے بارے میں بتائے ۔میں کیسا تھا اور کیسا بن گیا ہوں۔‘‘
’’تم مجھے سمجھنے میں غلطی کر رہے ہو۔میرا مقصد تم کو ناراض کرنا ہرگز نہیں تھا‘‘
’’مجھے کسی کی ناراضگی اور خوشی سے کوئی فرق نہیں پڑتا‘‘
دوران گفتگو ان کو احساس ہی نہیں ہوا کہ ان کی آواز اونچی ہوکر لوگوں کے کانوں تک پہنچ گئی تھی اور ان کے اردگرد لوگ اکٹھے ہونا شروع ہو گئے تھے۔وہ سب ان کو نفرت اور غصے بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔لوگوں کی موجودگی اور تیور دیکھ کر اُن کو اندازہ لگانے میں دیر نہیں لگی کہ حالات خراب ہو چکے ہیں۔
’’تم دونوں کی گفتگو سنی جا چکی ہے۔‘‘ہجوم میں سے ایک بولا
’’وقت ختم ہو چکا ہے ۔‘‘دوسرے نے گفتگو میں حصہ لیا۔’’کون کس کے جاننے والا ہے اس کا فیصلہ محل میں جا کر ہوگا ۔‘‘
اُن دونوں کے ہاتھ پشت پر کس کر باندھ دئیے گئے ۔ہجوم اُن کو اپنے گھیرے میں لیے موت کے نغمے گاتا ہوا آگے بڑھنے لگ گیا ۔ہجوم کے چلنے کی رفتار ضرورت سے زیادہ سست تھی۔یوں لگ رہا تھا جیسے وہ چل نہیں رہے بلکہ اپنی جگہ پر کھڑے کھڑے ہی تھوڑا تھوڑا سرک رہے ہوں۔
اُن دونوں کے چہروں پر موت کی زردی نمایاں ہوتی گئی۔ہجوم کا جوش و خروش بڑھتا جا رہا تھا ۔چلتے چلتے اچانک اُن میں سے ایک نے دوسرے کے کان میں سرگوشی کی۔جس کو سن کر اس کے چہرے پر اطمینان کا تاثر نمایاں ہوا ۔دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر اثبات میں سر ہلایا ۔
’’پہچانا ؟‘‘اُن دونوں نے باری باری اپنے دائیں اور بائیں چلنے والوں کو پکارا۔
چند سیکنڈکے اندر اندر یہ پکار پورے ہجوم کا طواف کرنے لگ گئی۔
پھر تو جیسے موت کے نغمے کی جگہ پہچانا ۔۔۔۔۔پہچاناکی آوازیں گونجنے لگ گئیں۔ہجوم میں بھگدڑ سی مچ گئی۔ان کی بجائے ہر ایک کو اپنی پہچان کی فکر پڑ گئی اور وہ دونوں زیر لب مسکراتے ہوئے ایک دوسرے کو فتح اور احسان مندی کی نظروں سے دیکھنے لگ گئے۔

 

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

افسانہ

بڑے میاں

  • جولائی 14, 2019
  افسانہ : سلمیٰ جیلانی انسانوں کی کہانیاں ہر وقت ہواؤں میں تیرتی پھرتی ہیں یہ ان کی روحوں کی
افسانہ

بھٹی

  • جولائی 20, 2019
  افسانہ نگار: محمدجاویدانور       محمدعلی ماشکی نے رس نکلے گنے کے خشک پھوگ کو لمبی چھڑی کی