افسانہ

کمرہ نمبر 121 : سیدہ ہُما شیرازی

زندگی میں بعض مقامات ایسے آتے ہیں جہاں سے زندگی ایک بار پھر نیا جنم لیتی ہے ایسا جنم جو پچھلے جنم سے زیادہ مضبوط اور من چاہا ہوتا ہے میرا پہلا جنم چک21 میں ہوا۔۔۔جس کی مٹی میرے جسم میں اتنی زیادہ ہے کے اسکا اندازہ اس چک سے میری محبت اور عقیدت سے لگایا جا سکتا ہے
میں نے چک کی مٹی جس طرح کھائی آج بھی اسکی خوشبو اپنے اندر محسوس کرتی ہوں مجھے نہیں پتا تھا کے 21 کی یہ محبت مجھے کس طرح نوازے گی۔ ۔۔۔کے میرا دوسرا جنم بھی 121 سے ہو گا ۔
121وہی مقام جہاں سے میں نے دوسرا جنم لیا اس دنیا میں آنے کے لیے رحمِ مادر اہم کردار ادا کرتا ہے جہاں ایک خاص مدت تک بچے کو دنیائے فانی کا سامنا کرنے کے قابل بنا کر دنیا کی رنگوں سے آشنا کیا جاتا ہے دوسرے جنم کی جگہ بھی کچھ اسی طرح ہی محسوس ہوتی ہے
پہلے جنم کی طرح دوسرا جنم بھی شاید میرے اختیار میں نہیں تھا مگر وہاں رہ کر ایک نئی زندگی لے کر آگے بڑھنا میرے اختیار میں تھا
شام ویسے ہی دنیا بھر کی اداسیوں کو اپنے دامن میں لیے آتی ہے
ہر شام کے منظر کو دیکھنے پر درختوں سے گرتے پتے، خستہ مکان، چھوٹی چھوٹی خواہشات کی تکمیل کے لیے روتے ہوئے ،بچے ٹوٹی پھوٹی قبریں ،صحرا کی وحشت اور دیگر کئی اجڑتے نظاریں ذہن کی دہلیز پر ایک دم سے وارد ہو جاتے ہیں جن کے حصار سے گھنٹوں تک کوشش کے باوجود نکلنا مشکل ہو جاتا ہے
ایسی ہی ایک شام کا انتخاب میرے دوسرے جنم کے لئے ہوا اتفاق کی بات یہ تھی کہ جن لوگوں کے باعث پہلا جنم ممکن ہوا آج وہی سب لوگ دوسرے جنم کا باعث بھی بن رہے تھے
گاڑی کے ٹائر مٹی کے ساتھ اس طرح پیش آرہے تھے جیسے وہ صدیوں سے اس مٹی سے ناراضگی کا حق ادا کر رہے ہوں مٹی ٹائروں کے ساتھ لگنے کے بعد ایسے ہی اڑ رہی تھی جیسے ادھوری خواہشات کا ایک ہجوم دل مجبور میں آتا اور جاتا ہے
میرا سفر نئے جنم کی طرف تھا سفر کے دوران خدشات کی بڑی تعداد میرا تعاقب کر رہی تھی
جس کے سمندر میں میں پوری طرح ڈوب چکی تھی ان کی مضبوطی اس لیے بھی زیادہ تھی کے یہ اندرونی اور بیرونی دونوں طرف سے حملہ آور تھے
گاڑی سبز درختوں کے جھنڈوں کو چیرتی ہوئی آگے بڑھ رہی تھی ایسے معلوم ہو رہا تھا کہ مجھ سے زیادہ گاڑی میرے دوسرے جنم کے لیے بےتاب ہے
کانوں پر پڑنے والی آواز نے اچانک واپس حال کی دنیا میں لاکھڑا کر دیا
سرگودھا آ گیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ چوکنا اس نام پر تھا یا شاید ان تمام کیفیات سے نکلنے پر جو پیش آرہی تھیں
میری آنکھیں گاڑی کے ساتھ بھاگ رہی تھیں ہر منظر بھاگتا ہوا دکھائی دے رہا تھا جیسے پوری دنیا میرے ارد گرد چکر لگا رہی ہو میں یہ طے نہیں کر پا رہی تھی کہ منزل میرے قریب ہے یا میں منزل کے اس طرح سفر اپنے اختتام کو پہنچا
گاڑی کے رکنے پر ایسا محسوس ہورہا تھا کہ جیسے اس کے سینے میں سانس تیزی سے پھولتا پھولتا ایک دم رک گیا ہو اس وقت گاڑی کسی ایسے انسان کا منظر پیش کر رہی تھی جو زندگی میں مسلسل پیش آنے والی مشکلات کی تھکان سے لمحہ بھر کے لئے آزاد ہوکر جمود کی کیفیت کا شکار ہوگیا ہو۔۔۔
میں نے خود کو یکجا کیا اوراپنا قدم اس مردہ وجود سے باہر رکھا آسمان پر تاریکیاں بھی مکمل طور پر نہیں چھائی تھی بلکہ دونوں میں ایک دوسرے پر قابو پانے کی جنگ بری طرح سے جاری تھی
ایسی تاریکی جونئے جنم کی اگلی صبح کا پیش خیمہ تھی
میرا وجود اس معصوم روح کی طرح تھا جو پہلے جنم پر دنیا مافیہہ سے بے خبر ہوتا ہے اور اس کا وجود دوسروں کے رحم و کرم پر ہوتا ہے
آج میں دوسروں کے رحم و کرم پر نہ ہوتے ہوئے بھی اسی کیفیت میں مبتلا تھی کئی آوازیں میرے کانوں سے ٹکرا کر واپس مڑ رہی تھیں
میرے ساتھ میرا سامان بھی جو کہ شاید نئے جنم سے کچھ زیادہ تھا ۔۔۔۔۔
گاڑی ایک بڑے کالے رنگ کے گیٹ والی عمارت کے سامنے رکی
کالا رنگ خود بہت سی کہانیوں استعارہ ہے مجھے وہ گیٹ چیک پوسٹ یا کسی انوکھی دنیا کا آغاز معلوم ہو رہا تھا بھاری قدموں سے آگے بڑھی آگے بڑھنے پر وہ ڈراؤنا گیٹ ایک دم سے ایسے کھلا جیسے صدیوں سے میرا منتظر ہو اور اپنی والہانہ محبت نچھاور کرنے کے لیے بےتاب ہو میرے اندر آنے پر وہ اسی شدت سے بند ہوا جس شدت سے میری آمد پر اس نے منہ کھولا تھا
پچھلی دنیا پیچھے محسوس ہو رہی تھی اور سامنے ایک نئی دنیا دیکھائی دے رہی تھی جو موجود تو تھی لیکن ابھی پوری طرح مجھ پر واضح نہیں ہوئی تھی سامان کا بوجھ اب زیادہ محسوس نہیں ہو رہا تھا کیونکہ اس سے کئی گنا وزنی خیالات جذبات اور کیفیات ذہن پر سوار تھے
ایک لمبی سڑک نما زمین پر مسلسل چلنے کے بعد جس کے دونوں اطراف پر درخت اور چھوٹے بڑے پھول اور پودے اُگائے گئے تھے مرکزی دروازے کی طرف بڑھی جس میں داخل ہونے پر جنت کے دروازوں کا خیال بار بار ذہن میں آنے لگا یہ خیال اس لیے بھی حاوی تھا کیونکہ دروازے سے داخل ہونے کے بعد ایک نئی دنیا کا منظر نامہ آنکھوں کے سامنے تھا
خیالات کے الجھاؤمیں آگے بڑھی
کمروں کاایک جال پھیلا ہوا تھا سامنے موجود موصوفہ جو کہ وہاں کی انتظامیہ کا حصہ تھی ایک دم بولی گراؤنڈ فلور۔۔۔۔۔
کمرہ نمبر 121
میرے نئے جنم کی جگہ
اور اس دن کے بعد جب بھی کہیں 121 کا ہندسہ آئے تو مجھ میں کیفیات اور یادوں کا ایک جہاں آباد ہو جاتا ہے جن کا بیان میرے لیے ناممکن ہے بلکل ایسے ہی جیسے آج تک اندھیرے کا وجود اور سورج کی تابناکی کا بیان مشکل ہے میرے لیے بھی کمرہ نمبر121 کی دنیا کا اظہار مشکل ہے
مجھے ان ہندسوں سے سخت نفرت ہے شاید اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ تمام تاریخ ہندسی اعتبار سے موجود ہے جب ھمارے گزرے ہوئے واقعات تاریخ کا حصہ بنتے ہیں تو ہر کیفیت کو صرف ہندسوں سے یاد رکھا جاتا ہےچاہے وہ کسی پیارے کی جدائی ہو یا وصال کا موسم زندگی کا کوئی سانحہ ہو یا پیش آنے والا کوئی حادثہ کوئی ملنے والی خوشی ہو یا کوئی غم سب گزرے واقعات کو ہندسی اعتبار سے یاد رکھا جاتا ہے جو کہ میرے لیے قابل نفرت عمل ہے یہ میرا اپنا نقطہ نظر ہے اور اسی کے ساتھ ساری زندگی گزرے گی ایسا ہی محسوس ہوتا تھا لیکن اس دفعہ عجیب ہی بدلاؤ دیکھنے کو ملا پہلی بار ہندسوں سے محبت اور ایسا محسوس ہوتا جب میرے منہ سے 121 نکلتا ہے تو میں نے اس سب کا بیان کردیا جو اس کے پیچھے پوشیدہ ہے جس کی وجہ سے میں آج اس جگہ موجود ہوں
121 محض ایک کمرہ نہیں بلکہ ایک نئے جنم کا استعارہ ہےایک ایسی جگہ جس کے سائے میں میرے شب و روز گزرے بہت سے لوگوں کو سمجھا اور پرکھا جس کی چھت کے نیچے میں نے اونچی اُڑانوں کے خواب دیکھے
جس کی دیواروں نے مجھے اداسی میں سہارا دیا جسکی ایک ایک جگہ میری ذات سے منسوب کیے واقعات کو اپنے اندر دفن کیے ہوئے ہیں
121 میں میں نے مسکرانا سیکھا زندگی سے لڑنا سیکھا امیدوں کے ٹوٹتے اور جڑتے دیکھا لوگوں کو نظروں سے گرتے دیکھا کئی حسین زندگیوں کو داغ دار ہوتے دیکھا کئی تلخ حقیقتوں کو ماتم کرتے دیکھا ۔۔۔۔۔
ہر رنگ 121 میں موجود تھا جس کا نظارہ بارِدیگر کرتی رہی زندگی مسلسل بہاؤ میں تھی اس نئے جنم میں دو سال کا عرصہ مجھے جینا تھا اور اس کے بعد شاید قدرت نے میرے لیے کوئی اور بہتر فیصلہ کر رکھا تھا کہنے کو تو دو سال بہت لمبا عرصہ محسوس ہوتے لیکن مجھے اس بات کا احساس تب ہوا جب آخری سمیسٹر کے فائنل آگئے کہ زندگی کس تیز رفتار گھوڑے پر سوار ہےجس کو روکنا مشکل ہی نہیں، ناممکن بھی ہے
ان دو سالوں میں جو جو کچھ زندگی کے سفر میں دیکھا اس کا تصور بھی نہیں کرسکتی تھی مختلف لوگوں کی کہکشاں میرے اردگرد موجود تھی جس سے زندگی میں چمک اور رونق برقرار تھی
میں روز کئی کہانیاں لیکر 121 کی دہلیز پر قدم رکھتی تھی اور جیسے یہ دہلیز میرے ہی انتظار میں ہو یہ کہتے ہوئے کے آ جاؤتمھارے بوجھ کو ہلکا کر دوں
ایسی جگہ کو میرے لیے چھوڑنا اسی طرح مشکل تھا جیسے نومولود کے لیے ماں کا پیٹ چھوڑنا ۔۔۔۔۔
جو بلبلاہٹ اور رونا اس وقت بچے کا ہوتا ہے شاید میں بھی اُسی حالات کا شکار تھی
اسی طرح مانوس ہو چکی تھی جیسے نومولود ماں کے پیٹ سے۔۔۔ لیکن زندگی میں تغیر ضروری عمل ہے اس کے بغیر ارتقاءممکن نہیں اسی یقین کے سہارے آگے بڑھی اس جگہ کو اس سوچ کے ساتھ چھوڑا کہ زندگی میں ابھی بہت سفر آگے طے کرنا ہے یہ تو ایک حصہ تھا ابھی منزل آگے ہے جس تک ابھی پہنچنا ہے لیکن اس بات کا احساس بھی تھا کے یہ جگہ کبھی بھی اپنے حصار سے باہر نہیں نکلنے دے گی
کیونکہ یہ وہی جگہ تھی جس نے منزل تک پہنچنے کے لئے میرے وجود کو مزید مضبوط کیا تھا
121 وہ مرکز جس کے گرد میری ذات سے جڑے واقعات گردش کرتے ہیں میرے ہاسٹل سے گھر آنے کے بعد بھی میری آج تک کئی راتیں 121 میں گزرتی ہیں اسی خاموشی اور بہت سارے خیالوں کے حصار میں جو کہ اس جگہ کی نمایاں خصوصیت ہے آج بھی کئی شامیں اس کھڑکی کے ساتھ گزر جاتی ہیں جو کمرے میں روشنی آنے کا واحد ذریعہ تھی
شاید میرا وجود اُسی چھت کے نیچے موجود ہے جو گزرے دنوں کو سمیٹ رہا ہے یہ میری ذات کا وہ مرکز ہے جس کو اگر نکال دیا جائے تو میری ذات کی تکمیل ممکن نہیں وہاں پر ملنے والے لوگ پیش آنے والے حادثات و واقعات سب اس مرکز کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں
وہ کمرہ جس میں ہمیشہ میں بوجھ لے کر گئی اور اس کی مسحور کن فضا نے میرا بوجھ اتارا میری کیفیات بانٹی مجھے ہر حال میں جینے کا ہنر بخشا آج تک اُسی روایت کے تسلسل کو برقرار رکھے ہوئے ہے
لیکن آج بوجھ کامیابی میں بدل چکا ہے آج پھر گاڑی اتنی ہی تیزی سے بھاگ رہی ہے لیکن اب ٹائر مٹی کو چومتے ہوئے محسوس ہو رہے ہیں اور جیسے جیسے مرکز سے دور ہو رہی ہوں کیفیات کا بیان ممکن نہیں ذہنی الجھاؤ کی کیفیت کے ساتھ ساتھ کئ آوازیں کانوں کے ساتھ ٹکرارہی ہیں کچھ مانوس اور کچھ غیر مانوس
میرے پہلو میں علم کا ایک سمندر موجود ہے جس کا صرف ایک قطرہ سنبھالنا میرے بس کی بات نہیں یہ کتابوں سے بھرا بیگ ہی میرا سرمایہ ہے جو کہ اب میرے ساتھ ہتھیاروں کی طرح موجود ہے اس میں کہیں سے منٹو کے بیان کردہ تلخ حقائق تو کہیں سے عصمت چغتائی کے افسانوں کی خوشبو کہیں سے جمیل جالبی کی تاریخ پر دستک تو کہیں پر دلی کے اجڑتے ہوئے واقعات کہیں سے خدائے سخن میر کا نوحہ تو کہیں سودا کے قصیدوں کی گونج کہیں سے لکھنؤ کی تہذیب کی خوبصورتی تو کہیں سے داستانوی دنیا اور کہیں سے میر درد کے تصوف کی جھلک کہیں سے اخترشیرانی کی رومانویت تو ساتھ ہی جدید اور روایتی افسانوں کی یلغار کہیں سے میرا جی کی نظمیں اور مجید امجد کی فطرت کی تباہ حالی پر نوحہ گری کے ساتھ ساتھ شالاط کا ہجر کہیں ثناءاللہ ڈار سے میرا سین کے عشق میں میراجی بننا اور پھر ن م راشد کا حسن کوزہ گر اپنے حالات کے ساتھ میرےاردگرد موجود ہے
ان سب کے درمیان سفر تسلی کے ساتھ جاری رہا گھر پہنچنے پر سب کچھ ویسا ہی دیکھنے کو ملا شاید میں ویسی نہیں تھی میں اپنے اندر کئی ادبی اور غیر ادبی شخصیات کا رنگ لئے ہوئے ایک منفرد شخصیت کے طور پر موجود تھی اور یہی میرا دوسرا جنم تھا آج جب لکھ رہی ہوں تو دل کے ساتھ قلم بھی اداس ہے یہ سب لکھنا اتنا آسان نہیں یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے نیزے کی اٙنی سے جگر کو چیرنا جس میں کتنی اذیت برداشت کرنا پڑتی ہے یا وہ جگر جان سکتا ہے یا وہ تیر جو جگر کو چیرتا ہے ۔۔۔۔۔
لیکن ہر کامیابی کے پیچھے ایک کہانی ہوتی ہے پر مجھے تو یوں لگتا ہے کہ ہر کہانی کے پیچھے 121ہوتا ہے

younus khayyal

About Author

1 Comment

  1. Maria Aiman

    جون 9, 2020

    Speechless Mash Shaa Allah…all ur words are really really so deep and heart touching…huge applause to u.missed u alot of.ur caring,ur way of talking..😍

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

افسانہ

بڑے میاں

  • جولائی 14, 2019
  افسانہ : سلمیٰ جیلانی انسانوں کی کہانیاں ہر وقت ہواؤں میں تیرتی پھرتی ہیں یہ ان کی روحوں کی
افسانہ

بھٹی

  • جولائی 20, 2019
  افسانہ نگار: محمدجاویدانور       محمدعلی ماشکی نے رس نکلے گنے کے خشک پھوگ کو لمبی چھڑی کی