افسانہ

ٹیلی گرام ۔۔۔ افسانہ : جوگندر پال

جوگندر پال
جوگندر پال
پچھلے بارہ برس سے شیام بابو تار گھر میں کام کر رہا ہے، لیکن ابھی تک یہ بات اس کی سمجھ میں نہیں آئی کہ یہ بے حساب الفاظ برقی تاروں میں اپنی اپنی پوزیشن میں جوں کے توں کیوں کر بھاگتے رہتے ہیں، کبھی بدحواس ہو کر ٹکرا کیوں نہیں جاتے؟ ٹکرا جائیں تو لاکھوں کروڑوں ٹکراتے ہی دم توڑ دیں اور باقی کے لاکھوں کروڑوں کی قطاریں ٹوٹ جائیں تو وہ اپنی سمجھ بوجھ سے نئے رشتوں میں منسلک ہو کر کچھ اس حالت میں ری سیونگ سٹیشنوں پر پہنچیں "بیٹے نے ماں کو جنم دیا ہے سٹاپ مبارک باد!” یا "چوروں نے قانون کو گرفتار کر لیا ہے۔” یا "افسوس کہ زندہ بچہ پیدا ہوا ہے۔”یا ہاں اس میں کیا مضائقہ ہے؟ شیام بابو مشین کی طرح بے لاگ ہو کر میکانکی انداز میں برقی پیغامات کے کوڈ کو رومن حروف میں لکھتا جا رہا ہے لیکن اس مشین کے اندر ہی اندر ان بوکھلائی ہوئی انسانی سوچوں کا تالاب بھر رہا ہے کیا مضائقہ ہے؟ جیسی زندگی، ویسے پیغام "کرتا ہوں سٹاپ کشور ” اس نے کسی کشور کے تار کے کوڈ کے آخری الفاظ کاغذ پر اتار لئے ہیں اور وہ اس بات سے برآمد ہوتے ہوئے ایک ایک لفظ کو قلم بند کرتا جائے۔ سوچنا سمجھنا اس کا کام ہے جس کے نام پیغام موصول ہوا جب دھیرج کو کوئی پکارے تو آواز کو تو سارا ہجوم سن لیتا ہے لیکن صرف دھیرج ہی مڑ کر دیکھتا ہے کہ کیا ہے خلاف معمول نہ معلوم کیا سوچ کر شیام بابو تار کا مضمون پڑھنے لگا ہے "شادی روک لو سٹاپ۔ میں تم سے بے انتہا محبت کرتا ہوں سٹاپ کشور ۔” وہ ہنس پڑا ہے وہ دوسرے ہنگامے میں۔ بے چارہ تھوڑی سی محبت کر کے باقی محبت کرنا بھول گیا ہو گا، مگر اب کوئی راہ نہیں سوجھ رہی ہے تو باقی سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر محبت ہی محبت کئے جانے کا اعلان کر رہا ہے۔ محبت ہی محبت کرنے سے کیا ہوتا ہے بے بی؟ طلاق، ڈارلنگ! طلاق ہو جائے مگر محبت قائم رہے۔
اور۔شیام بابو ایک اور تار کا یہ مضمون پڑھنے لگا ہے آپ کی باپ کی موت کی خبر پا کر مجھے بے حد دکھ ہوا ہے شیام بابو پھر ہنس دیا ہے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں، اپنے باپ کی موت پر مجھے اتنا افسوس ہوا ہے کہ لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا۔
تو کیوں کر رہے ہو بھائی؟”\ تاکہ میرا رونا نکل آئے۔ آیئے، آپ بھی میرے ساتھ رویئے۔
سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ بندروں کو چپ کیسے کرایا جائے۔ سب کے سب روتے ہی چلے جا رہے ہیں۔
ارے بھائی، کیوں رو رہے ہو؟
مجھے کیا پتہ؟ اس سے پوچھو۔
تم ہی بتا دو بھائی، کیوں رو رہے ہو؟
مجھے کیا پتہ؟ اس سے پوچھو۔
تم؟” مجھے کیا پتہ؟
تم تو آخری بندر ہو بھائی بتاؤ، کیوں رو رہے ہو؟”\ بس یوں ہی سوچا کہ ذرا فرصت میسر آئی ہے تو ایک بار جی جان سے رولوں۔ میرا ایک کام کیجئے۔ آپ کو زحمت تو ہو گی، مگر میرے رونے کو کسی تگڑی سی الم ناک خبر میں پیش کرنے کے لئے ایک ارجنٹ ٹیلی گرام کا ڈرافٹ تیار کر دیجئے۔ لکھئے میری ماں مر گئی ہے ٹھہریئے، وہ تو غریب اسی روز مر گئی تھی جب بیوہ ہوئی تھی۔ اس دن سے ہم نے اس کی طرف دھیان ہی نہیں دیا لکھئے! میرا بھائی مرگیا ہے ہاں، یہی لکھئے مگر نہیں، سب کو معلوم ہے کہ ہماری آپس میں بالکل نہیں بنتی میری بہن نہیں، وہ تو پہلے ہی مر چکی ہے میں ارے ہاں! یہی لکھئے، میں ہی مرگیا ہوں۔ مجھے سب کو فوری طور پر خبر کرنا ہے کہ میں ہی مرگیا ہوں۔
مبارک باد پیش کرتا ہوں سٹاپ شیام بابو کے خود کار قلم نے جلدی جلدی لکھا اور وہ اپنی تحریر سے بے خبر سا سوچ رہا ہے، مجھے دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ میں زندہ ہوں۔ میں زندہ ہوں تو یہ میز بھی زندہ ہے جس پر جھک کر میں اپنا کام کئے جا رہا ہوں۔ چونکہ یہ میز کھائے پئے سوئے بغیر زندہ رہ سکتی ہے۔ اس لئے اس کی ڈیوٹی یہ ہے کہ ہمارے دفتر کے اس کمرے میں چوبیس گھنٹے خدمت بجا لانے کے لئے اپنی چاروں ٹانگوں پر کھڑی رہے اور مجھے چونکہ اپنی مشین کی ٹک ٹک کو بھی چلائے رکھنا ہوتا ہے اس لئے میرے لئے یہ آرڈر ہے کہ آٹھ گھنٹے یہاں ڈٹ کرکام کرو او ر باقی وقت میں اپنی مشین کی دیکھ بھال کے سارے دھندے سنبھالو ہاں، یہی تو ہے۔ میں جیتا کہاں ہوں؟ دفتر میں تو صرف پروڈیکشن کا کام ہے۔ مشین چلنا بند ہو جائے تو پروڈیکشن پر برا اثڑ پڑے گا۔ اس لئے سارے دفتری ٹائم میں تو مشین یہاں چلتی رہتی ہے اور اس کے بعد مجھے ہر روز ساری مشین کو کھول کر صاف کرنا پڑتا ہے، اس کی آئیلنگ گریزنگ کرنا پڑتی ہے، اس کے ایک ایک ڈھیلے پرزے کو کسنا پڑتا ہے۔۔اور یہ سارا کام بھی مجھے اکیلے ہی انجام دینا ہوتا ہے۔
پچھلے ساڑھے سات برس سے، جب سے شیا م بابو کی شادی ہوئی ہے، اس کی بیوی وہیں اپنے ماں باپ کے گاؤں میں ان ہی کے ساتھ رہ رہی ہے۔ شادی کے موقع پر وہ اس کی ڈولی اٹھوا کر گاؤں سے باہر تولے آیا، لیکن پھر جب سمجھ میں نہ آیا کہ اسے کہاں لے جائے تو ڈولی کا مونسہ واپس گاؤں کی طرف مڑوا لیا یہ تم نے بہت اچھا کیا بیٹا اس کی ساس نے کہا تھا کہ ایک بار ہماری بیٹی کو گاؤں سے باہر لے گئے۔ کم سے کم رسم تو پوری ہو گئی۔ اب چاہو تو بے شک ساری عمر یہیں رہے۔ یہ گھر بھی تو اسی کا ہے لیکن اس کا کوئی اپنا گھر کیوں نہیں جہاں اسے وہ لے آتا تو اس میں بوئی ہوئی انسانیت کی آبیاری ہوتی رہتی۔
شروع شروع میں تو شیام با بو کی بے چینی کا یہ عالم تھا کہ سوتے میں بھی بیوی کے گاؤں کا رخ کئے ہوتا تم گھبراؤ نہیں سنیہ دتی۔ میں دن رات کرائے پر کوئی اچھا سا کمرہ لینے کی مہم میں جٹا ہوا ہوں۔ جیسے ہی کوئی مل گیا، تمہیں اسی دم یہاں لے آؤں گا مگر برا ہو اس بڑے شہر کا، جو اپنے چھوٹے دل میں ایک کے اوپر ایک کئی کمرے بنائے ہوئے ہے مگر اتنی اونچائی پر رہائش کے کرائے کے خیال سے اسے یہاں رہنے کی بجائے یہاں سے لڑھک کر خود کشی کی سوجھتی ہے۔ پورے ساڑھے سات برس اسی طرح گزر گئے ہیں۔ وہ میاں اور بیوی ساڑھے پانچ سو میل کے فاصلے پر وہاں۔ شیام بابو تین سو پینسٹھ دن تک اپنی بیس دن کی ارنڈ لیو کا انتظار کرتا رہتا اور وقت آنے پر گاڑیوں، بسوں اور تانگوں کو بدل بدل کر وہ گویا اپنے دو پیروں سے سرپٹ بھاگتے ہوئے وہاں جا پہنچتا اور اس کی خواہش اتنی شدید ہوتی کہ اپنی تیار بیٹھی ہوئی بیوی پر وہ بے اختیار کسی درندے کی طرح ٹوٹ پڑتا۔ ایک دو تین سال تک تو وہ ہر سال گیا، لیکن چوتھے سال عین چھٹی کے دنوں میں وہ بیمار ہو گیا، پھر پانچویں سال جو جانا ہوا تو اس کے بعد ڈھائی سال میں ایک بار بھی نہیں جا سکا۔ جو پیسے وہاں جانے میں ضائع ہوں گے۔ ان میں سے آدھے بھی منی آرڈر کرا دوں گا تو بیسیوں کام نکال لے گی ہاں، اس کا ایک دو سالہ لڑکا بھی ہے جس کے بارے میں اس کی بیوی نے اسے لکھا تھا کہ وہ اسے اپنی پانچویں سال کی چھٹی پر اس کی کوکھ میں ڈال آیا تھا ؒ لیکن شیام بابو اپنا حساب کتاب کر کے اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ اس کا بیٹا اس کا بیٹا نہیں۔ شاید اسی وجہ سے ڈھائی سال کے اس عرصے میں وہ ایک بار بھی اس کے پاس نہیں گیا تھا لیکن اس سلسلے میں اس نے بیوی کو کبھی کچھ نہیں لکھاجو ہے سو ٹھیک ہےوہ بھی کیا کرے؟ اور میں بھی کیا کروں؟کبھی اچھے دن آ گئے تو سب اپنے آپ ٹھیک ہو جائے گا۔
اسے اور اس کے ہمارے بچے کو اس کا ہوا تو ہم دونوں کا ہی ہوا یہیں اپنے پاس لے آؤں گا اور پھر ہم چین سے رہیں گے، بڑے چین سے رہیں گے۔
اس کے دفتر کا کوئی ساتھی اس کا کندھا جھٹک رہا ہے۔ مشین میں شاید کوئی نقص پیدا ہو گیا ہے اور وہ رکی پڑی ہے شیام بابو!
آں ں! شیام بابو نے ہڑبڑا کر اپنی آنکھیں کھول لی ہیں۔
طبیعت خراب ہے تو گھر چلے جاؤ۔
کون سا گھر؟ نہیں ٹھیک ہوں، یوں ہی ذرا اونگھنے لگا تھا ٹک ٹک ٹک ٹک!مشین پھر چلنے لگی ہے۔ تمہارے لئے پانی منگواؤں؟”
ارے بھائی، کہہ دیا نا، ٹھیک ہوں۔
اس کے ساتھی نے تعجب سے اس کے کام پر جھکے ہوئے سر کی طرف دیکھا ہے اور اپنے کام میں الجھ گیا ہے۔
شیام بابو کو اپنا جی اچانک بھر ابھرا سا لگنے لگا ہے۔ عام طور پر تو یہی ہوتا ہے کہ اسے اپنی خوشی کی خبر ہوتی ہے نہ اداسی کی۔ اسے بس جو بھی ہوتا ہے بے خبری میں ہی ہوتا ہے۔ اسے معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ کیا کر رہا ہے اور یوں ہی سب کچھ بخوبی ہوتا چلا جاتا ہے۔ وہ بے خبر سا اپنے آپ دفتر میں آ پہنچتا ہے اور اسی حالت میں سارے دن قلم چلا چلا کر اپنے ٹھکانے پر لوٹ آتا ہے اور پھر دوسرے دن صبح کو عین ویسے کا ویسا ڈیوٹی پر آ بیٹھتا ہے۔ یعنی معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ کون ہے، کیوں ہے، کیا ہے؟ کوئی ہو تو معلوم بھی ہو اس دن تو حد ہو گئی؛ وہ یہاں اپنی سیٹ پر بیٹھا ہے اور اس کا باس یہاں اس کے قریب ہی کھڑا پوچھ رہا ہے، بھئی، شیام بابو آج کہاں ہے؟”\شیام بابو شیام بابو!شیام بابو یقینی طور پر اس کی آواز سن رہا ہے، مگر سن رہا ہے تو فوراً، جواب کیوں نہیں ہیں دیتا۔س سر!ایسے بھولے بھٹکے چہرے شاید ہماری آنکھوں میں ٹھہرنے کی بجائے روحوں میں لڑھک جاتے ہیں۔ ان سے مخاطب ہونا ہو تو اپنے ہی اندر ہولو، اپنی ہی تھوڑی سے جان سے انہیں زندہ کرلو، ورنہ یہ تو جیسے ہیں ویسے ہی ہیں۔
گوشت کو رگوں میں خون دوڑنے کی اطلاع ملتی رہے تو یہ زندہ رہتا ہے، ورنہ بے خبری میں مٹی ہو جاتا ہے۔ جب شیام بابو کی اپنی زندگی بے پیغام ہے تو اسے کیسے محسوس ہو کہ ٹیلی گراموں کے ٹیکسٹ برقی کوڈ کی اوٹ میں کھلکھلا کر ہنس رہے ہیں، یا دھاڑیں مار مارکر رو رہے ہیں، یا تجسس سے اکڑے پڑے ہیں۔ سوکھی مٹی کے دل پر آپ کچھ بھی لکھ دیجئے، اسے اس سے کیا؟ شیام بابو کو اس سے کیا، کہ کوئی کسے کیا پیغام بھیج رہا ہے؟ اس کی قسمت میں تو کسی کا پیغام نہیں، محبت کا یا نفرت، خوشی یا غم کا اسے کیا؟ ٹیلی گراموں کے گرم گرم ٹیکسٹ کا کوڈ اس کے ٹھنڈے قلم سولی سے لٹک کر سپاٹ سی صورت لئے کاغذ پر ڈھیر ہوتا رہتا ہے یہ لو، الفاظ تو نرے الفاظ ہیں، بس الفاظ ہیں، الفاظ کیوں ہنسیں یا روئیں گے؟ ان کو پڑھ کے ہنسو، روؤ، یا جو بھی کرو، تم ہی کرو یہ لو!
لیکن اس وقت یہ ہے کہ شیام بابو کو اپنا جی یک بارگی بہت بھرا بھرا لگنے لگا ہے۔ سوچوں کا تالاب شاید بھر بھر کے اس کے دل تک آپہنچا ہے اور وہ انجانے میں تیرنے لگا ہے اور سوکھی مٹی میں جان پڑنے لگی ہے۔
سٹاپ میں بدیس سے لوٹ آیا ہوں سٹاپ اور عین اس وقت صاحب کے چپراسی نے اس کی آنکھوں کے نیچے ہیڈ آفس کا ایک لیٹر رکھ دیا ہے۔ اس نے لیٹر پر نظر ڈالی ہے اور پھر چونک کر خوشی سے کانپتے ہوئے اسے دوبارہ پڑھنے لگا ہے۔ اسے سرکاری طور پر اطلاع دی گئی ہے کہ تمہارے نام دو کمروں کا کوارٹر منظور ہو گیا ہے!
کیدار بابو جمیلکشن!ادھر دیکھو دوستو۔ دیکھو، میرا کیا لیٹر آیا ہے؟”
کیا کیا ہے؟
میرا کوارٹر منظور ہو گیا ہے!
تو کیا ہوا؟ہائیں، کیا کہا کوارٹر منظور ہو گیا ہے؟!ہاں!
بہت اچھا!بہت اچھا! سب کے لئے چائے ہو جائے شیام بابو!
ارے چائے ہی کیا، کچھ ادھارے دے سکتے ہو تو جو چاہو منگوا لو۔
ہاں، تم فکر نہ کرو۔ میں سارا بندوبست کئے دیتا ہوں یہ تو بہت ہی اچھا ہو گیا شیا م بابو!راموادھر آؤ رامو، جاؤ ہوٹل والے کو بلا لاؤ جاؤاب بھابی کو کب لا رہے ہو شیام بابو؟
آج چھٹی کی درخواست دے کر ہی جاؤں گا کیدار بابو! شیا م بابو قصور میں اپنے کوارٹر میں بیٹھا کھانا کھا رہا ہے اور اس کے کندھوں پر اس کا لڑکا کھیل رہا ہے کیا نام ہے اس کا؟دیکھو نا، دماغ پر زور ڈالے بغیر اپنے اکلوتے بچے کا اپنا ہی تو ہے نام بھی یاد نہیں آتا۔ کوئی بات نہیں شکر اور دودھ کھلتے ملتے ہی گاڑھے اور میٹھے ہو جاتے ہیں اری سن رہی ہو بھلی لوگ؟ اگلی چپاتی کب بھیج وگی؟ دفتر کے لئے دیر ہو رہی ہے۔
لو، شیام بابو، ہوٹل والا تو آگیا ہے بس ایک ایک چاٹ، ایک ایک گلاب جامن اور کیا؟ ایک ایک سموسہ چلے گا نا شیام بابو؟لکھو ہمارا آرڈر بھائی پر نانند!
شیام بابو کو پتہ ہی نہیں چلا ہے کہ دفتر میں باقی سارا وقت کیسے بیت گیا ہے۔ وہاں سے اٹھنے سے پہلے اس نے سب ساتھیوں سے وعدہ کیا ہے کہ کل سویرے وہ ان سب کو ان کی بھابی کی تصویر دکھائے گا۔
اتنی بھولی ہے کہ ڈرتا ہوں اس شہر میں کیسے رہے گی۔
ڈرو مت شیام بابو۔ بھابی کو لانا ہے تو اب شیرببر بن جاؤ۔
دفتر سے نکل کر تیز تیز قدم اٹھائے ہوئے شیام بابو چوراہے پر آگیا ہے اور پان اور سگریٹ لینے کے لئے رک گیا ہے اور پھر تمباکو والے پان کا لعاب حلق سے اتارتے ہوئے نتھنوں سے سگریٹ کا دھواں بکھیرتے ہوئے ہلکی ہلکی سردی میں حدت محسوس کرتے وہ بڑے اطمینان سے اپنے رہائش کے اڈے کی طرف ہولیا ایک چھوٹی سی کھولی جس میں مشکل سے ایک چارپائی آتی ہے۔ ابھی پچھلے ہی مہینے خان سیٹھ نے اسے دھمکی دی تھی۔ بھاڑے کے دس روپے بڑھاؤ، نہیں تو چلتے بنو ہاں!
چوہے کے اس بل کا کرایہ پہلے ہی پچاس روپے وصول کرتے ہو خان سیٹھ۔ اپنے خدا سے ڈرو!
لیکن خان سیٹھ نے اپنے خدا کو ڈرانے کے لئے ایک بھیانک قہقہہ لگایا بلی شریف نہ ہوتی بابو، تو بولو، کیا ہو جاتا؟ ساٹھ روپے، نہیں تو خالی کرو ہاں!
اسی مہینے خالی کر دوں گا اور سیٹھ سے کہوں گا، لو سنبھالو اپنی کھولی خان سیٹھ۔ تمہاری قبر کی پورے سائز کی ہے لو!نہیں جھگڑے وگڑے کا کیا فائدہ؟ چپکے سے اس کی کھولی اس کے حوالے کر کے اپنی راہ لوں گا۔
بس سٹاپ آگیا ہے اور بس بھی کھڑی ہے، لیکن بہت بھری ہوئی ہے۔ شیام بابو نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ پیدل ہی جائے گا۔ یہاں سے تھوڑا ہی فاصلہ تو ہے اس کا سگریٹ جل جل کر انگلیوں تک آ پہنچا ہے، لیکن ابھی اس کی خواہش نہیں مٹی ہے۔ اس نے ہاتھ کا ٹکڑا پھینک کر ایک اور سگریٹ سلگا لیا ہے ساوتری کو میری سگریٹ پینا بالکل پسند نہیں پیسے بھی جلاتے ہو اور پھیپھڑے بھی۔ اس سے تو اچھا ہے میرا ہی ایک سرا جلا کر دوسرے کو ہونٹوں میں دبا لو اور دھواں چھوڑتے جاؤ! میرا مزہ کیا سگریٹ سے کم ہے؟ اری بھلی لوگ، ایک تمہارا ہی مزہ تو ہے۔ سگریٹ وگریٹ کی لت کو گولی مارو آؤ!اس نے خیال ہی خیال میں بیوی کو سینے سے لگا لیا ہے اور مخالف سمت سے آتی ہوئی ایک عورت سے ٹکرا گیا ہے، گویا اس کی ساوتری نے اس سے الگ ہونے کے لئے اپنے آپ کو جھٹکا ہوارے! اس نے اندھے پن میں اپنا ہاتھ اس عورت کی طرف پھیلا دیا ہے ایڈی اٹ! وہ عورت غصے سے پھنکارتی ہوئی آگے بڑھ گئی ہے اور شیام بابو شرمندہ ہو جانے کے باوجود خوش خوش ہے اور عورت کی پیٹھ کی طرف مونہہ لٹکا کر اس نے بہ آواز بلند کہا ہے۔ آئی ایم ساری میڈم لیکن اس عورت کی پھنکار پھر اس کے بند کانوں کے باہر ٹکرائی ہے۔ ایڈی اٹ!
شیام بابو اپنے ذہن کو جھاڑ رہا ہے اور اڑتی ہوئی گرد میں اس کی بیوی زور زور سے ہنس رہی ہے اور ٹکراؤ پرائی عورتوں سے! ایک میں ہوں جو بلا روک ٹوک ساری دراز دستیاں سہہ لیتی ہوں۔ میں اور کی طرف ذرا نظر اٹھا کر دیکھوں کسی اور کی طرف ذرا نظر اٹھا کر تو دیکھوںکسی اور کی طرف دیکھنے کی مجھے ضرورت ہی کیا ہے؟ میرے لئے تو بس جو بھی ہو تم ہو شیام بابو نے اپنے آپ کو ڈانٹ کر کہا ہے نیں، تم نے اپنی بیوی کے ماتھے پر خواہ مخواہ کلنک کا ٹیکہ لگا رکھا ہے۔ تمہارا بچہ تمہارا ہی ہےاور اگر مان بھی لیں کہ وہ تمہارا نہیں، تو اس میں ساوتری کا کیا دوش؟ اس کا سارا سال تمہاری ارنڈ لیو کے دس بیس روز کا تو نہیں چل سب ٹھیک ہے، میرا بچہ میرا ہی ہے ہمارے نیٹو کی آنکھیں اس کی طرح چھوٹی چھوٹی ہیں۔ ماتھ مجھ پرگیا ہے، مگر ناک میں بھی کیسا باپ ہوں کہ دو سال اوپر کا ہولیا ہے مگر میں نے ابھی تک اسے ایک بار بھی نہیں دیکھا۔ پچھلے سال مجھے ایک چکر کاٹ آنا چاہئے تھا آج چھٹی کی درخواست دینا بھی بھول گیا ہوں۔ اب کل پہلا کام یہی کروں گا اور اس ہفتے کے آخر میں یہاں سے نکل جاؤں گا ساوتری کو چٹھی بھی نہ لکھوں گا اور اچانک اس کے سامنے جاکھڑا ہوں گا ساوتری!اور وہ آنکھیں مل مل کر میری طرف دیکھتی رہ جائے گی ساوتری وہ رو دے گی یہ مجھے کس کی آواز سنائی دی ہے۔ہائے اب تو اٹھتے بیٹھتے تمہاری ہی صورت دکھائی دیتی ہے نیٹو کے باپو۔ اب تو آ جاؤ!میں آگے بڑھ کر اسے گلے لگا لوں گا اور وہ میرے بازوؤں میں بے ہوش ہو جائے گی۔ ساوتری! ساتری!اپنی کھولی کے سامنے پہنچ کر اس نے بے اختیار اپنی بیوی کا نام پکارا ہے لیکن وہاں اس کے تارگھر کے رامو نے آگے بڑھ کر اسے جواب دیا ہے بابوجی؟”
ارے رامو، تم!کیسے آئے؟شیام بابو اپنے حواس درست کر رہا ہے۔ بابوجی!رامو کی آواز بھاری ہے اور وہ بولتے ہوئے تامل برت رہا ہے۔
اتنے اکھڑے اکھڑے کیوں ہو؟بولو نا!
آپ کا تار لایا ہوں۔
میرا تار؟” ہاں بابوجی، یہ تار آپ کے ہاتھ سے ہی لکھا ہوا ہے، مگر آپ کا دھیان ہی نہیں گیا کہ آپ کا ہے۔ تار کا لفافہ ایک طرف سے کھلا ہے لیکن شیام بابو اسے دوسری طرف سے چاک کر رہا ہے۔ ڈسپیچ والے کشن سنگھ کو بھی خیال نہ آیا شیام بابو، کہ یہ تار آپ کا ہے۔
شیام بابو نے تار کا فارم کھول کر دونوں ہاتھوں سے اپنی آنکھوں کے سامنے فٹ کر لیا ہے۔
مجھے بھی آدھا راستہ طے کر کے اچانک خیال آیا بابوجی، ارے، یہ تار تو اپنے بابوجی کا ہے میں اسے پڑھ چکا ہوں۔ بہت افسوس ہے کہ ساوتری نے خودکشی کر لی ہے سٹاپ۔

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

افسانہ

بڑے میاں

  • جولائی 14, 2019
  افسانہ : سلمیٰ جیلانی انسانوں کی کہانیاں ہر وقت ہواؤں میں تیرتی پھرتی ہیں یہ ان کی روحوں کی
افسانہ

بھٹی

  • جولائی 20, 2019
  افسانہ نگار: محمدجاویدانور       محمدعلی ماشکی نے رس نکلے گنے کے خشک پھوگ کو لمبی چھڑی کی