افسانہ

’’ میں‘‘ ۔۔۔ افسانہ :  محمد جمیل اختر

محمدجمیل اختر
 محمد جمیل اختر
آج صبح آنکھ کھلی تومعلوم ہوا کہ ــ ’’میں ‘‘ گُم ہوگیاہے۔
’’ میں ‘‘ جو آہستہ آہستہ گُم ہورہاتھا آج مکمل طور پر کہیں گُم ہوگیاتھاگھرکے تمام کمروں میں دیکھا، کتابوں ، کتابوں میں چُھپے خطوں حتٰی کہ برتنوں تک میں دیکھ لیالیکن ’’میں ‘‘ کاکوئی سُراغ نہ ملا۔
پڑوسیوں کے دروازے پر دستک دی تووہاں سے ایک چھوٹابچہ باہر نکلا
’’ بیٹا کیا تُم نے ’’میں‘‘ کو دیکھا ہے؟‘‘
’’جی کیا انکل؟‘‘ بچے نے حیران ہوکرپوچھا
’’ کیا تمہارے ابو گھر پر ہیں ؟‘‘
’’ نہیں ‘‘
اب بچے سے مزید سوالات کرنا فضول تھا اور یہاں وقت تھا کہ دوڑے جارہا تھادفتر۹ بجے پہنچنا تھا اور اب دس ہونے کو تھے ، اِسی دوران دفتر سے صاحب کا فون آگیا، اُن کو بتایا کہ ’’میں ‘‘ آج صبح سے لاپتہ ہے سودفتر آنے سے قاصر ہے جیسے ہی ’’ میں ‘‘ ملافوراہی دفتر حاضر ہوکر رپورٹ کرے گا
صاحب نے ’’ میں ‘‘ کو خوب برا بھلا کہا کہ اُس نے ہمیشہ ہی سے کام سے جی چرایاہے اور آج دفتر میں چونکہ کام زیادہ تھا سو گمشدگی کابہانہ بنالیاہے سو اب اُس کے خلاف باقاعدہ کاروائی کی جائے گی۔اِس سے پہلے کہ صاحب کوئی وضاحت سُنتے انہوں نے فون ہی کاٹ دیا۔
دوپہر تک ایک کمرے سے دوسرے کمرے تک ٹہلتا رہا اور اُس کاانتظار کرتارہا۔
’’ میں ‘‘ کی گُمشدگی کا واقعہ یکدم نہیں ہواتھابلکہ یہ گمشدگی قسطوں میں ہوئی تھی آہستہ آہستہ کرکے میں کو گُم کیا جارہا تھا اور آج صبح تو ’’میں ‘‘مکمل طور پر کہیں کھو گیاتھا۔
’’میں‘‘ جو پیدائیشی طورپر ایک آرٹسٹ تھا گاوں کی کچی دیواروں پرجلی ہوئی لکڑی کے کوئلے سے وہ عجیب وغریب تصویریں بنایا کرتاتھااوراُس کے ہاتھ ہروقت کوئلے اور مٹی سے کھیلنے کی وجہ سے گندے رہتے تھے جب سکول داخل ہواتو اُس کے اُستاد نے سب بچوں کو کہاکہ تم سب نے بڑے ہوکر’’ فوجی ‘‘ بنناہے ، کسی بھی بچے کو فوجی کے بارے کچھ معلوم نہیں تھا بس یہی جو اُستاد نے بتایا تھاکہ فوجی بہت بہادر ہوتے ہیں اور اُس سے سب ڈرتے ہیں ۔
’’ میں ‘‘ پوچھنا چاہتاتھا کہ کیا فوجی تصویریں بناتے ہیں ؟ لیکن استاد کے ہاتھ میں بید کی چھڑی دیکھ کر’’میں ‘‘ زندگی بھر یہ سوال نہ پوچھ سکااور چُپ چاپ فوجی بننے لگا۔
میٹرک کے بعد ’’ میں ‘‘ فوج میں بھرتی ہونے کے لیے ٹیسٹ دینے گیا تو معلوم ہوا کہ اُس کاقد اتنا بلند نہیں جتنا کہ ایک فوجی کا ہونا چاہیے سو اُسے ریجیکٹ کردیاگیا’’میں ‘‘ بڑا دلبرداشتہ ہوا کہ اُسے تو اُس کے استاد نے بچپن ہی سے فوجی بننے کا خواب دکھایا تھاپھر یہ سوچ کر ’’میں ‘‘کو چین آگیا کہ اب اطمینان سے تصویریں بنایا کریگالیکن اِسی دوران اُس کے بارے ایک اور فیصلہ ہوچکا تھا کہ اُسے ڈاکٹر بننا چاہیے سو وہ ڈاکٹر بننے کے لیے کالج میں داخل ہوگیابائیولوجی کے لیبارٹری میں اُسے ہمیشہ الٹی آنے لگتی اوراُسے سمجھ نہ آتیکہ وہ یہ تجربات کیسے کرے سو ’’ میں ‘‘فیل ہوگیا۔
’’میں ‘‘ بہت پریشان ہوالیکن یہ سوچ کر مطمئن ہوگیا کہ اب چین سے تصویریں بنائے گااب کی بار’’میں‘‘ کوسادہ ایف اے کرادیا گیاجو اُس نے پاس کرلیا ۔ اُس کے بعد اُس نے کئی چھوٹے بڑے کورسز کیے ، ٹی وی ریپئر نگ ، الیکٹریشن ،پولٹری فارمنگ اور سروے جیسے کئی کورسز کرنے کے بعد ’’میں ‘‘ کو ایک سرکاری ادارے میں کلرک کی نوکری مل گئی پچھلے پانچ سال سے ’’میں ‘‘ کلرک تھا۔
’’ میں ‘‘ نے اس دوران کئی پینٹنگز بھی بنائیں کہ جن کی کہیں نمائش نہ ہوسکی اُس کے دوست اُس کی بنائی ہوئی پینٹنگز دیکھ کرہنستے تھے اور کہتے کہ ایسی تصویریں کوئی مفت میں بھی نہ لے لیکن وہ اُس سے اپنے اسکیچ مفت بنواتے اور اُن اسکیچز کی خوب تعریف کرتے ۔
اِسی دوران سارے دوستوں اور قریبی رشتے داروں کوفون کرکے ’’ میں ‘‘ کی گمشدگی کی اطلاع دی اوراُن سے پوچھا کہ کیا تم میں سے کسی نے ’’ میں ‘‘ کو دیکھا ہے ، سب کا خیال تھا کہ انہوں نے اُس کو کئی سال پہلے دیکھا تھا ایک اور پریشانی کی بات یہ تھی کہ مختلف لوگوں نے ’’ میں ‘‘ کو مختلف وقتوں میں مختلف انداز میں دیکھا تھا سو یہ اندازہ لگانا تقریبا ناممکن تھا کہ ’’ میں ‘‘ دراصل کب اور کہاں گُم ہوا ہے ۔
اخبار کے دفتر پہنچ کر ’’ میں ‘‘ کی گمشدگی کا اشتہار دیاکہ ’’ میں ‘‘ جو گزشتہ کئی سالوں سے آہستہ آہستہ گُم ہورہا تھا آج مکمل طور پر گم ہوگیا ہے جس کسی کو نظر آئے وہ ’’میں ‘‘ کو گھر تک پہنچادے۔ اطلاع دینے والے کو ’’ میں ‘‘ کی بنائی گئی ایک پینٹنگ مفت دی جائے گی۔
اخبار کے دفتر بیٹھے بیٹھے خیال آیا کہ سارا گھر دیکھ لیا ہے لیکن گھر کا تہہ خانہ نہیں دیکھا ۔ تہہ خانے کو ’’میں‘‘ نے پینٹنگ روم بنارکھا تھا لیکن کلرک بننے کے بعد’’ کلرک ‘‘ اور ’’ میں ‘‘ کے درمیان فاصلہ بڑھتا گیا اب تو مدت سے تہہ خانہ بند تھااور وہاں موجود تصویروں پر مٹی نے نئے نقش بنادیے تھے وہ تصویریں جو اپنی پہلی نمائش کی منتظر تھیں۔
تہہ خانے کا دروازہ کُھلاتھااندر جاکر معلوم ہوا کہ ساری پینٹنگزجلادی گئی تھیں اور ’’ میں ‘‘ رنگوں میں ڈوبا ،بے حس وحرکت پڑا تھا اور اُس کی آنکھیں مجھے گُھوررہی تھیں۔۔۔
ختم شد

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

افسانہ

بڑے میاں

  • جولائی 14, 2019
  افسانہ : سلمیٰ جیلانی انسانوں کی کہانیاں ہر وقت ہواؤں میں تیرتی پھرتی ہیں یہ ان کی روحوں کی
افسانہ

بھٹی

  • جولائی 20, 2019
  افسانہ نگار: محمدجاویدانور       محمدعلی ماشکی نے رس نکلے گنے کے خشک پھوگ کو لمبی چھڑی کی