افسانہ

محبت کی مسکراہٹ : فریدہ غلام محمد

شام کے سائے گہرے ہو رہے تھے ۔سردی بھی کچھ بڑھ گئ تھی ۔سڑک کے کنارے چلنے والے بھی کم کم تھے ۔بس شام کو واپس جاتے پرندوں کی طرح کچھ لوگ تھے جو اپنے گھروںکی جانب رواں دواں تھے ۔کسی کے چہرے پر قدرے آسودگی تھی ۔شاید خاطر خواہ اشیاء لے کر جا رہا تھا ۔کسی کے چہرے پر تفکر اور تھکن ظاہر ہو رہی تھی ۔شاید تھکن کی وجہ کچھ زیادہ بہتر دن نہ گزرنا تھا ۔ان کے پاس سے جب کوئ شور مچاتی گاڑی گزرتی تو پیدل چل کر تھک جانے والوں کی آنکھوں میں عجب سی حسرت دکھتی جو پورے چہرے کا احاطہ کر لیتی ۔
وہ ایک بینچ پر بیٹھی یہی دیکھ رہی تھی جبکہ مریم مسلسل بول کر چپ ہو چکی تھی ۔قدرے خفا تھی ۔
زریں گل نے اس کو مسکرا کر دیکھا ۔
"میں تمہاری بات سن رہی تھی مریم مگر آنے جانے والوں کو بھی دیکھ رہی تھی نا ۔”
کیوں کسی کو ڈھونڈ رہی تھی ؟
"نہیں ”
تم لاوارث تو نہیں چار قدم پر تمہاری خالہ کا گھر ھے پھر؟
"پھر کچھ نہیں "۔زریں کی آواز دھیمی ہو گئ ۔
چلو اوپر چلیں کافی دیر ہو گئ ھے ۔وہ اٹھ کھڑی ہوئی ۔مریم کو بھی اٹھنا پڑا ۔
ہاسٹل پہنچ کر جب دونوں کمرے میں آئیں تو زریں کافی اداس تھی ۔
وہ بیڈ پر لیٹ گئ تھی لیکن مریم کے جملے نے اسے جھنجھوڑ دیا تھا ۔
"تم پاگل ہو ۔ایسی بات تمہارے ذہن میں آئ بھی کیسے ؟ اور یہ محبت کیا بلا ھے ؟اور کبھی سوچا ۔میرا بھی اس معاشرے میں کچھ حصہ ھو گا ۔کچھ لوگ ہوں گے جن سے میرے اچھے تعلقات ہوں گے کیا میں ان سے یہ سنوں جس بچی کو میں اور اماں اپنے گھر لائے تھے جو مجھ سے ایک نہیں ،دو نہیں پورے پندرہ سال چھوٹی ھے ۔مجھ سے شادی کرنا چاہتی ھے ۔بھوری آنکھوں میں غصہ تھا یا کرب ۔سمجھ نہ آیا ۔یہ غالب فاروقی تھا ۔جو اس کا غرور تھا مگر تب وہی غرور اوندھے منہ زمین پر پڑا سسک رہا تھا ۔محبت اپنی بے قدری پر اپنا منہ چھپا رہی تھی ۔وہ احتجاج بھی نہ کر سکی ۔محبت میں احتجاج کیا معنی رکھتا ھے ۔کوئ گھر میں زبردستی آ بھی جائے تو ممکن ھے مگر کسی کے دل کا دروازہ خود سےکھولنا کہاں ممکن ہوتا ھے ۔وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی ۔وہ یہ بھی نہ کہہ سکی
غالب پندرہ سال چھوٹا ہونا جرم ھے کیا؟ ۔کیا تمہارے خیال میں محبت دیکھ بھال کر کرنی چاہیے۔کیا محبت اتنی سمجھ دار ہو گئ ھے کہ وہ خود فیصلہ کرلےکہ اسے کس کے دل میں جاگنا ھے ۔کس کے دل میں رہنا ھے ۔زریں نے بے چین ہو کر کروٹ لی تو مریم اس کی چائے لیکر آ چکی تھی ۔
"سچی میں یہاں کافی ٹھنڈ ھے نا؟”
"ہاں پہاڑی علاقے ایسے ہی ہوتے ہیں ”
اوہو اماں اس نے جرسی نہیں پہنی ابھی بخار ھو جائے گا اسے ۔
لو گرم دودھ پیو ”
نہیں پینا ”
منہ بسورا
پیتی ہو یا لگاؤں دو جھانپڑ
وہ چلایا تو اسے پینا ہی پڑا
ارے آنسو !زریں تم تو رہی ہو ؟
نجانے کب آنسو بہہ نکلے تھے ۔
وہ کتنا سہتی ۔یادیں اس کا گھیراؤ کر چکی تھیں ۔وہ کسی طرح بھی انھیں شکست نہیں دے پا رہی تھی ۔چائے تپائ پر رکھ کر وہ سسک رہی تھی ۔
زریں گل کیا ہوا ھے ؟مریم بھی پریشان ھو گئ ۔
جتنا اسے یاد ھے وہ زریں کے بعد یہاں آئ تھی ۔سرخ و سپید رنگت ،ہلکے بھورے بال خوبصورت آواز ۔۔مومی ہاتھ پاؤں اور اس سے بڑھ کر این جی او میں بہت ہونہار ممبر ۔۔سب سے پہلے اسی نے خوش آمدید کہا تھا ۔یہاں لڑکیوں میں وہ دونوں تھیں ۔اس گھر میں نیچے مالک مکان کی فیملی آباد تھی اور اوپر والے حصے میں یہ دونوں رہتی تھیں ۔ابھی آئے ہوئے دن ہی کتنے ہوئے تھے انھیں مگر دونوں میں ایک خلوص کا رشتہ تھا ۔دونوں فری ڈسپنسری چلا رہی تھیں ۔زریں گل کا یہ روپ اس کے لئے بھی نیا تھا۔

تم خالہ سے جھگڑ کر یہاں آئ ہو ؟
نہیں ”
پھر”
پھر کچھ نہیں مریم ”
اس نے جلدی سے آنسو صاف کیے۔کیا تو اپنے دکھوں کا بھرم نہیں رکھ سکتی۔ اس نے خود کو ملامت کی ۔مگر مریم چپ نہیں بیٹھے گی وہ جانتی تھی ۔
دونوں نے رات کا کھانا کھایا ۔برتن دھو کر رکھے اور پھر صبح کیا کچھ کرنا ھے پورا پیپر ورک کیا ۔چلو مریم اب جا کر سو جاؤ ۔اس نے مریم سے کہا تو وہ بے ساختہ بولی ۔۔۔
کس بات نے رلایا تمہیں اور یہاں بزدلوں کی طرح چھپ کر کیوں بیٹھی ہو ؟ مریم کا ایک سوال تو نہیں تھا۔ ایک بوچھاڑ تھی ۔
اچھا ادھر آؤ آتش دان روشن کریں پھر بتاتی ہوں ۔دونوں نے اسے روشن کیا دونوں فلور کشن پر براجمان ہو چکی تھیں ۔

میں پانچ سال کی تھی جب والدین وفات پا گئے ۔مجھے یاد ھے وہ بہت اداس شام تھی ۔اپنے اندر بہت اسرار لئے ہوئے ۔ایسے میں مجھے اپنے والدین کے طیارہ کریش ہونے کی اطلاع ملی ۔خالہ نے مجھے سینے سے لگا لیا ۔میری عمر کی ایک بیٹی اور ایک بیٹا غالب ان کے ہمراہ تھے ۔مجھے یاد ھے وہ مجھے اپنے گھر لے آئے تھے ۔مریم زخم تب رستے ہیں جب ان پر مرہم لگانے والا کوئ نہ ہو ۔یہاں تو ہر لمحہ میرا خیال رکھا جاتا ۔میری خالہ بیوہ تھیں ۔ان کی دو ہی اولادیں تھیں۔ غالب اور کرن ۔غالب ہم دونوں سے پندرہ سال بڑا تھا ۔مگر وہ ہمارا سایہ بن کر رہتا تھا ۔وہ رکی
رک کیوں گئ بولو نا؟مریم کی آواز میں کچھ سننے کا تجسس تھا
کچی عمر کے خواب بھی عجیب ہوتے ہیں
انسان کے خواب کا عکس چہرے پر آ جاتا ھے میرے ساتھ بھی کچھ یہی تھا ۔غالب کو دیکھ کر مجھے جو اپنائیت کا احساس ہوتا تھا ۔مجھے نہیں پتہ وہ کب پیار میں بدلا۔مجھے تو یاد ھے جب وہ اپنی ماں ،کرن اور میرے لئے اپنا مسقبل بنا رہا تھا ۔دن رات پڑھتا تھا تو میں بھاگ بھاگ کر راتوں کو اس کے لئے کافی بناتی ۔میں نے اس کی ہر پسند جان لی تھی ۔اس کو کونسا رنگ پسند ھے ۔میں خود خالہ کے ساتھ جا کر اس کی شاپنگ کر آتی ۔مجھے معلوم تھا ۔اس کے کمرے میں کون سے پردے لگانے ہیں ۔کون سے پھول رکھنے ہیں ۔اس کے روز کے کپڑوں کی میچنگ کر کے میں رکھ آتی تھی ۔اس کے پسند کے سارے کھانے میں نے سیکھ لئے تھے ۔تب تک مجھے یہی لگتا تھا بس وہ میرا اتنا خیال رکھتا ھے تو مجھے بھی کچھ نہ کچھ کرنا چاہیے ۔وہ جب سول سروس میں آ گیا تو سب سے پہلے میرے دل اسوقت خبر ہوئ جب خالہ نے اس سے کہا کہ وہ اب شادی کر لے آخر تیس سال اک عمر ہوتی ھے ۔مگر اس نے بہت سنجیدگی سے کہا تھا ۔اماں ابھی نوکری بھی نئ ھے اور ان دونوں کی عمریں بھی اتنی نہیں کہ شادی کر دیں ان کی بس یہ دونوں اپنے گھر کی ہو جائیں تو میں شادی کر لوں گا۔ تب میرے دل میں کچھ ہوا ۔پہلی بار مجھے لگا میں اس کے بغیر کیسے رہوں گی لیکن تب بھی محبت کا بھید مجھ پر نہیں کھلا ۔میں سمجھی ۔میری عادت ھے وہ ۔لیکن ایک دن ۔۔۔ وہ رک گئ ۔
کیا ایک دن ۔ مریم محو ہو کر سن رہی تھی قدرے جھنجھلا گئ۔
یہ میری زندگی کی کہانی ھے مریم کوئ ڈرامے کا سین نہیں جو روک دیا جائے تو تم جھنجھلا جاو ۔”زریں نے قدرے دکھ سے کہا تو مریم شرمندہ سی ہو گئ ۔
اوکے سو جاؤ صبح اٹھنا بھی ھے ۔اس نے بات ختم کر دی ۔مریم میں مزید پوچھنے کی جرات نہ ہوئی مگر اس کے اندر تو جیسے اضطراب کروٹیں لے رہا تھا ۔اسے کیا کیا یاد آ رہا تھا ۔
کرن کا رشتہ طے ہوا تو اس کے لئے بھی رشتہ تلاش کیا جانے لگا ۔شاید پچھلے دسمبر کی بات تھی ۔
وہ شاید کوئ کتاب پڑھ رہا تھا ۔وہ چالیس کے قریب تھا مگر عمر چور اتنا کے اندازہ لگانا مشکل ۔بنا دروازہ کھٹکھٹائے وہ اندر داخل ہوئ۔
غالی ۔۔”
کیا بات ہے زریں سب ٹھیک ھے ؟”
اس کے چہرے پر تفکر دیکھ کر اسے اور تیش آ گیا تھا
مجھے سب ٹھیک نہ ہونے پر ہی آنا چاہیے؟
اوہو خفا نہیں ہونا چلو بتاؤ کیا ہوا ؟
اس نے ملائمت سے اس کا ہاتھ پکڑا اور اپنی کرسی پر بٹھا دیا ۔خود دوزانو بیٹھ گیا ۔کچھ بال اس کے ماتھے پر آئے تو جی چاہا ہاتھ سے پیچھے کر دے مگر پھر رک گئ ۔
غالی مجھے شادی نہیں کرنی ”
کیوں نہیں کرنی ؟ماتھے کی تیوری بتا رہی تھی اسے اچھا نہیں لگا ۔
جب تم کرو گے تب میں بھی کر لوں گی ۔اس نے بہت غور سے اس کی آنکھوں میں جھانکا
یہ ٹھیک نہیں زریں ”
نجانے کیوں وہ نظر چرا گیا یا اسے لگا وہ تو اس کی محبت میں ڈوب گئ تھی ۔اسے ہر ادا پر یہی گمان ہوتا تھا شاید ۔
ایک شرط ھے میری ”
کیا؟

تم میرے سے شادی کر لو ۔۔یہ الفاظ تو ادا ہو گئے مگر غالی جیسے آپے سے باہر ہو گیا
پاگل ہو تم یہ کیا بکواس کر رہی ہو ؟وہ جھٹکے سے اٹھا
وہ وہیں بیٹھی تھی نظریں جھکائے

کیا ہماری شادی نہیں ہو سکتی ۔کوئی جرم ھے ؟
تب وہ اس پر جھکا
زریں گل مجھے اسی دنیا میں رہنا ھے لوگ کیا کہیں گے ۔تم کو شادی نہیں کرنی نہ کرو آج کے بعد اس ٹاپک پر بات نہیں ہو گی ۔یہ کہہ کر اس نے اسے بازو سے پکڑا اور دروازے سے باہر کر کے دروازہ بند کر دیا ۔
گویا اپنی زندگی سے ہی نکال دیا ۔
اس دن کے بعد غآلب نے اس پر دھیان دینا ہی چھوڑ دیا ۔وہ جان بوجھ کر باہر سردی میں بیٹھتی مجال جو وہ ٹوکے ۔اس نے تو کرن کو بھی کہہ دیا تھا ۔اپنی شادی تک وہ اس کے کمرے کی ہر شے سیٹ کرے ۔کرن کی شادی کے ساتھ ہی اس نے این جی او جوائن کی تھی ۔اس کا خیال تھا اب تو چیخے چلائے گا ۔منع کرے گا ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔اور وہ خاموشی سے یہاں چلی آئ ۔
اسے سمجھ أ گئ تھی ۔محبت تو دھیمی آنچ پر سلگنے کا نام ھے ۔یہ تو ایسا سر ھے جس کی ہر لے میں اداسیاں ڈیرے ڈالے بیٹھی ہیں ۔ہجر کے درد رقم ہیں۔ محبت وقت سے آزاد ھے اسے وقت کے ترازو میں تولنے والے محبت نہیں کر سکتے ۔یہ دیوانوں کی جاگیر ھے ۔پروانے اس کے وارث ہیں ۔شوریدہ سری اس کو معتبر کرتی ھے گویا اب عشق سمندر میں اسے تنہا ہی ڈوبنا ھے کیونکہ محبت بھی تو اس نے تنہا کی تھی جو محبت میں ڈوب گیا وہی اس کے اسرار سے واقف ہو سکتا ھے ۔پچیس سال کی عمر میں اس نے محبت کو جان لیا تھا ۔اس نے کبھی غالی کو خود سے الگ نہیں سمجھا تھا مگر وہ کسی اور کی نہیں ہونا چاہتی تھی اور نہ اس کو کسی اور کا ہوتا دیکھ سکتی تھی ۔
وہ ہولے ہولے سسک رہی تھی ۔مریم کچھ نہ جانتے ہوئے بھی سب سمجھ چکی تھی ۔۔کافی دن گزر گئے تھے ۔اسے سب یاد آ رہے تھے۔ رات خالہ کو خواب میں دیکھا تو پریشان ہو گئ
دو دن سے خالہ اسے یاد بھی بہت آ رہی تھیں ۔
اس نے فون کیا تو کوئ جواب نہیں ۔اس کا نمبر کسی کے پاس نہیں تھا مگر وہ خالہ کو فون کرتی تھی ۔کرن کو فون نہیں کرتی تھی مگر خالہ سے خیریت پوچھ لیتی تھی ۔اس نے قدرے ایسی جگہ کا انتخاب کیا جہاں کرن سے بات ہو سکے ۔پہلی ہی رنگ پر کرن نے فون اٹھا لیا ۔ اس کی آواز سن کر وہ کرب و غصے میں بولی
بہت جلدی فون کیا تم نے ۔۔۔وہ رو رہی تھی اور لڑ رہی تھی ۔ہماری ماں چلی گئ زریں تیرا نمبر نہیں ملا مجھے ۔غالب بھائ تنہا ہیں میری جان ۔تم تو جانتی ہو وہ کبھی دکھ ظاہر نہیں ہونے دیں گے ۔ادھر فلائٹس بند ہیں ۔خدارا جاؤ ان کے پاس ۔۔ اس کے ہاتھ سے تو موبائل ہی گر گیا ۔تن سے کسی نے جان ہی نکال لی تھی ۔اپنی محبت میں وہ کتنی خود غرض ھو گئ تھی ۔اسے یہ بھی یاد نہ رہا۔ کتنے دنوں سے اس نے خالہ کو فون نہیں کیا تھا ۔وہ خالہ جو ماں سے بڑھ کر تھیں ۔ارے غالب دنیادار تھا خالہ تو نہیں ۔اگر وہ تم سے محبت نہیں کرتا تھا تو اس کا کیا قصور تھا ۔یااللہ یہ میں نے کیا کر دیا
مریم نے کیسے اس کو بس پر سوار کیا ۔وہ کیسے پہنچی یہ تو الگ کہانی تھی ۔
گیٹ کے دونوں بلب ان تھے ۔بابا نے گیٹ کھول دیا ۔وہ دیوانہ وار اندر بھاگی تھی ۔غالی نیچے ہی فرش پر بیٹھا تھا ۔کتنا کمزور ہو گیا تھا ۔
غالی ۔۔۔اس کی آواز پر اس نے سرخ پتھرائی آنکھوں سے اسے دیکھا ۔
"کیا لینے آئی ہو اب یہاں "؟ شکست خوردہ آواز سن کر اس کے دل کو کچھ ہوا
"ایسے نہ کہو غالی ۔۔۔۔۔۔مجھ سے غلطی ہوئی مگر میں اب کہیں نہیں جاؤں گی”. ۔وہ رو رہی تھی ۔غالب ایک لمحہ اسے دیکھتا رہا ۔اور پھر اٹھ گیا۔۔۔۔۔۔نجانے وہ کب تک بت بنی بیٹھی رہی ۔چھ ماہ میں کیا سے کیا ہو گیا۔
صبح وہ اٹھا تو اسے وہیں اسی حالت میں صوفے پر سر رکھے دیکھ کر گھبرا گیا ۔اسے یہ بھی یاد نہیں رہا وہ اس سے خفا تھا ۔
"زریں میری زریں آنکھیں کھولو” ۔۔۔ اس نے زریں کو بازوؤں میں لیا اور بیڈ پر لٹا دیا۔
زریں ۔۔۔۔۔ یار تمہیں کچھ ہوا تو میں بھی نہیں رہوں گا ۔میں کسی کا نہیں ہو پایا کیونکہ میں خود سے جھوٹ بولتا رہا ۔خود کو دھوکہ دیتا رہا ۔ارے محبت کوئ گناہ تو نہیں تھی ۔تم کو نہ پا کر میں کتنا انجان ہو گیا تھا اس دنیا سے
ماں نے مجھے کوئ پتہ نہیں بتایا مگر مجھے یہ پتہ ضرور چل گیا ۔میں تمہارے بغیر نہیں جی سکتا ۔آنکھیں کھولو زریں ۔۔دیکھو مجھے آج دنیا کی پرواہ نہیں ”
زریں گل کو لگا وہ شاید خواب میں دیکھ رہی ھے مگر یہ خواب نہیں تھا وہ اس کا ہاتھ تھامے بچوں کی طرح رو رہا تھا ۔اس کو لگا جیسے کوئی اس کے زخموں پر دھیرے دھیرے مرہم رکھ رہا ہو ۔اس کی بےقراریوں کو قرار مل رہا تھا ۔وہ اور سننا چاہتی تھی اس کے لبوں پر مسکان تھی اور وہ دیوانہ وقت کی قید سے آزاد ہو کر اپنی محبت کا اقرار کر رہا تھا ۔اسے لگا محبت بھی مسکرا رہی تھی ۔خردمند کو دیوانہ بنا کر محبت کو اکثر ایسے ہی مسکراتا دیکھا گیا ھے ۔

 

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

افسانہ

بڑے میاں

  • جولائی 14, 2019
  افسانہ : سلمیٰ جیلانی انسانوں کی کہانیاں ہر وقت ہواؤں میں تیرتی پھرتی ہیں یہ ان کی روحوں کی
افسانہ

بھٹی

  • جولائی 20, 2019
  افسانہ نگار: محمدجاویدانور       محمدعلی ماشکی نے رس نکلے گنے کے خشک پھوگ کو لمبی چھڑی کی