افسانہ

ماں : ع ۔ع ۔ عالم

"ماما! کیا ہوا؟ کیوں رو رہی ہو آپ؟”
زرنش نے اپنی ماما (جو کہ یونی ورسٹی میں پروفیسر تھی) کے آنسو پونچھتے ہوئے پوچھا۔
"کچھ نہیں بیٹا! بس یوں ہی”
"پھر بھی بتائیں تو”
بیٹی نے پھر پوچھا
"بس آج مجھے میری امی یاد آ گئیں۔وہ ستر سال کی تھیں اور میرے یونی ورسٹی سے گھر آنے پر میرے لیے کھانا بنانا اور میری ہر آواز پرلبیک کہنا۔امی جی کی عادت تھی۔وہ سب کی باتیں بھی سنتی کہ میرا خیال کرتی رہتی ہو ،ہم بھی تو تیرے بچے ہیں۔مگر وہ ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتی۔تمھاری آنٹی کو طلاق ہوئی تو سوائے امی جی کے سبھی اسے قصور وار ٹھہراتے۔تمھارے نانا ابو ایک بار چھت سے گرے تو دو ماہ تک سوئی نہیں بل کہ ان کی خدمت کرتی رہتی۔ایک بارتمھارے چھوٹے ماموں نے ایک لڑکے کا سر پھوڑ دیا تھا۔امی جی نے اسے ذرا بھی آنچ نہ آنے دی۔حالاں کہ وہ قصور وار تھا ۔جب میں نے قصوروار کو بچانے کی وجہ پوچھی تو مسکرا کر کہا:
"پروفیسرہ بی بی ماں بنے گی تو سب سمجھ جائے گی”

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

افسانہ

بڑے میاں

  • جولائی 14, 2019
  افسانہ : سلمیٰ جیلانی انسانوں کی کہانیاں ہر وقت ہواؤں میں تیرتی پھرتی ہیں یہ ان کی روحوں کی
افسانہ

بھٹی

  • جولائی 20, 2019
  افسانہ نگار: محمدجاویدانور       محمدعلی ماشکی نے رس نکلے گنے کے خشک پھوگ کو لمبی چھڑی کی