افسانہ

سایا : ع ۔ع ۔ عالم

بارش ہر چند خوش بختی کی علامت سمجھی جاتی رہی ہے مگر ضروری نہیں کہ ہمیشہ ہی ہر کسی کے لیے بارش نعمت کے روپ میں ہی وارد ہو۔ ممکن ہے کہ بارش عذاب ہو۔ اس بات کی تصدیق اس کسان سے پوچھیے جس کی فصل پک کر تیار ہو چکی ہو اور یہ نعمت برسنے لگے۔
بارش کے جو بھی فوائد و نقصانات ہوں اسے ان سے کوئی غرض نہیں تھی۔ وہ تو بس ہر روز بارش برسنے کی دعا کیا کرتا۔ اسے بارش سے کوئی خاص رغبت نہیں تھی نہ ہی وہ بارش میں نہانے کا عادی تھا اسے تو بارش اس لیے بھاتی تھی کہ بارش کے باعث اس کے گھر کے سامنے والے گھر کی چھت پر نسیما آ یا کرتی تھی جو ادھر ادھر اچھے سے دیکھتے ہوئے خاص کر اپنی سامنے کی منڈیر کی مخالف سمت ایلومینیم کی کھڑکی کو جھانکتے ہوئے چھت پر جمع ہونے والے پانی کو ہٹاتی جاتی۔
وہ اپنی طرف سے مکمل جانچ پرکھ کر کے ایسا کیا کرتی کیوں کہ اس کے ساتھ اس کی جواں سالہ دونوں بیٹیاں بھی ہوتیں۔پہلے تو وہ دونوں بارش میں خوب نہاتیں بعد میں ماں کے ساتھ مل کر پانی ہٹاتیں۔اس کا ادھر ادھر دیکھنا اس لیے بھی ضروری تھا کہ ماں ہونے کی حیثیت سے وہ اس بات کا یقین کرتی کہ کہیں منڈیر کی مخالف سمت کیف سلطان ان ماں بیٹیوں کو دیکھتا نہ ہو۔
کیف سلطان کے حوالے سے وہ اس لیے زیادہ متفکر ہوتی کیوں کہ چند ذرائع سے اسے خبر ملی تھی کہ کیف کی نظر اچھی نہیں۔ وہ اس کی بیٹیوں پر نظر رکھے ہوئے ہے۔
یہ بات اسے ایک آ نکھ نہ بھاتی تھی اس لیے وہ ہمیشہ کیف سلطان سے خود کو اور اپنی دونوں بیٹیوں کو چھپائے رکھتی۔
آ ج بھی خوب بارش برسی تھی اور معمول کے مطابق وہ اپنی بیٹیوں کے ہمراہ پانی ہٹانے کی مشقت میں محو تھی۔ہر بار اس کی نظر سامنے والی ایلومینیم کی کھڑکی پر پڑتی جہاں اسے ایک سایا حرکت کرتے دکھائی دیتا مگر وہ یہ سمجھ کر کہ ہوا کے باعث کھڑکی کا پردہ ہے اپنے کام میں جٹ جاتی۔
ایک دو بار اسے ایسا لگا اور اس نے اپنی بیٹیوں کو بھی اشارے سے کہا مگر اگلے ہی لمحے اسے اپنی غلط فہمی کا یقین یوں ہوا جب باہر گلی میں کیف کو اپنے کسی دوست سے بات کرتے دیکھا۔
اسے یقین ہو گیا کہ پردہ ہی ہے۔
ایسا کئی مرتبہ ہوا کہ سایا حرکت کرتا تو اسے شک ہوتا مگر اگلے ہی لمحے کیف کو نیچے گلی میں کھڑا دیکھتی تو اس کا شک ختم ہو جاتا۔
ایک ماں جس قدر اپنی بیٹیوں کی عصمت کے حوالے سے متفکر ہو سکتی ہے وہ اس قدر ہوتی۔
جس اکیڈمی میں اس کی بڑی بیٹی پڑھنے جاتی کیف بھی اسی میں داخل ہو گیا۔
جوں ہی اس بات کا اسے پتا چلا اس نے اپنی بیٹی کی اکیڈمی ہی بدلوا دی۔
کیف اچھا اور قابل لڑکا تھا مگر پتا نہیں کیوں نسیما کو ایک آ نکھ نہ بھاتا تھا۔ اس کی ایک معقول وجہ تو اس کی قدیم خاندانی عداوت تھی جس کے باعث وہ کیف کا نام بھی منہ پر لینا گوارا نہ کرتی۔
نسیما کے شوہر کو وفات پائے سات سال گزر چکے تھے مگر اس کے باوجود وہ ایک تنومند خاتون دکھائی دیتی تھی۔وہ اپنی عمر کی دیگر عورتوں کی بہ نسبت جلدی بیوگی کا شکار ہوگئی تھی۔اس کے شوہر کے خاندان نے دوسری جگہ شادی کرنے کی اجازت بھی دی مگر وہ نہ مانی۔ اسے بس اپنی جواں سالہ بیٹیوں کی فکر تھی۔نسیما کی اس بے چارگی کے باعث اس کی بڑی بیٹی اس کے بھائی نے اور چھوٹی بیٹی اس کی جیٹھانی نے اپنے بیٹوں کے لیے مانگ لیں۔
پانچ سال کا عرصہ طویل ہونے کے باوجود گزر گیا۔
بڑی بیٹی کے ساتھ ہی اس نے اپنی چھوٹی بیٹی کی شادی رچا دی تاکہ اک دم اس فرض سے سبکدوش ہو سکے مگر اس کی ایک وجہ کیف سلطان بھی تھا۔جو خود بھی عمر کے اس حصے میں قدم رکھ چکا تھا جہاں قدم رکھتے ہی جنسی میلان کی طلب شدت سے محسوس ہوتی ہے۔اس دوران کیف سلطان مزید تعلیم کے لیے لاہور چلا جاتا ہے۔
کبھی کبھار وہ جب بھی آ تا شومئی قسمت کہ بارش ہی نہ ہوتی۔
کیف سلطان جب تک لاہور میں رہا نسیما چھت پر آ تی پانی ہٹاتی ایلومینیم کی کھڑکی کے اس پار جھانکتی تو کوئی سایا نظر نہ آ تا۔
مگر اب وہ اس بات کی کم ہی پروا کیا کرتی تھی کیوں کہ اس کی دونوں بیٹیوں کی تو شادی ہو چکی تھی اب اسے کس بات کی فکر۔
وہ جب بھی بارش کا پانی چھت پر جمع ہوتا اکیلے چھت پر آ تی اور پانی ہٹانے میں مگن ہو جاتی۔ماہ جولائی میں شدت کی گرمی کے باعث بارشوں کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا تھا۔
ہر تین دن بعد بادل آ تے اور مینہ برسا کے چلے جاتے۔
کیف سلطان اب کی بار لاہور گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے کے بجائے واپس اپنے گھر چلا آ یا تھا۔ اس نے خود کو کافی تبدیل کر لیا تھا۔
نماز کی پابندی بجا لاتا اور ذکر و اذکار میں بھی مگن رہتا۔
محلے کے تمام لوگوں کی نظروں میں اس کا مثبت تشخص قائم ہو چکا تھا۔
ایسا تشخص کہ وہ کھل کر اپنی زندگی جی بھی نہیں سکتا تھا بل کہ سماج کی قایم کردہ تشخصی شخصیت ہی اس کی شخصیت تھی جس کے خول سے وہ نہ چاہتے ہوئے بھی آ زاد نہیں ہو پا رہا تھا۔
جولائی کی آ ج سترہ تاریخ تھی گرمی، حبس اور مسلسل بجلی کی لوڈ شیڈنگ نے فضا کو سوگوار بنا رکھا تھا۔
آ ج صبح سے سورج طلوع تو ہوا تھا مگر بادلوں میں چھپا ہونے کے باوجود شدت کی حبس پیدا کیے ہوئے تھا۔
تین بجے کے قریب چل کر ٹھنڈی ہوا نے نوید باراں سنائی تو پژمردہ چہروں پر نکھار آ گیا۔
بادل کیا امڈے جیسے موسم بہار آ گیا۔
بادل یوں برسے کہ جیسے آ ج ہی صرف برسیں گے۔
لمحہ بھر میں کیا گلیاں کیا بازار ہر جگہ پانی، پانی ہو گیا۔
چھوٹے بچے گلیوں میں نکل آ ئے اور گلیوں میں کھڑے پانی میں دوڑتے اور ایک دوسرے پر پانی پھینکتے۔
وہ لڑکیاں جو گھروں سے باہر نہیں نکل سکتی تھیں اپنے گھروں کی چھتوں پر بارش میں نہانے میں مصروف تھیں۔ جب کہ نسیما معمول کے مطابق اپنی چھت پر جمع شدہ بارش کے پانی کو ہٹانے میں محو مگر اب کے وہ تن تنہا تھی۔۔۔
بارش کے مسلسل ہونے کے باعث بار بار اس کی چادر پانی نکالنے میں عار بن رہی تھی تو اس نے چادر اتار کر، کپڑے سکھانے کے لیے لگائی گئی تار پر رکھ دی اور وائیپر سے مسلسل پانی نکالنے لگی۔
اس دوران اس کا پورا بدن بھیگ چکا تھا یہاں تک کے اس کے جسم کے خدو خال نمایاں دکھائی دینے لگے۔
ایک دو بار سامنے ایلومینیم کی کھڑکی کے اس پار حرکت کرتے سائے کی جانب اس کا دھیان بھی گیا مگر جلد ہی اسے اپنا وہم سمجھتے ہوئے وہ محو کار ہو گئی۔

جب کہ ایلو مینیم کی کھڑکی کے اس بار نسیما کو واضح دکھائی دینے والا سایا مسلسل حرکت کر رہا تھا۔کبھی یہاں تو کبھی وہاں۔۔۔

younus khayyal

About Author

1 Comment

  1. Ayesha Jamshaid

    جولائی 27, 2020

    Isykehtay hain srmaya

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

افسانہ

بڑے میاں

  • جولائی 14, 2019
  افسانہ : سلمیٰ جیلانی انسانوں کی کہانیاں ہر وقت ہواؤں میں تیرتی پھرتی ہیں یہ ان کی روحوں کی
افسانہ

بھٹی

  • جولائی 20, 2019
  افسانہ نگار: محمدجاویدانور       محمدعلی ماشکی نے رس نکلے گنے کے خشک پھوگ کو لمبی چھڑی کی