افسانہ

"سائیکو” : ع۔ع۔عالم

"آ ج تو قسمت کی دیوی تیرے بھائی پر مہرباں رہی”
"وہ کیسے شہزاد میاں” شہزاد کے روم میٹ نے پوچھا
"تمھیں کیا بتاؤں آ ج تو وہ میرے ساتھ بیٹھ کر اپنے ہاسٹل تک گئی”
"پھر۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟” روم میٹ نے پوچھا
پھر کیا تیرا بھائی اسے کیفے ٹیریا لے گیا اور زنگر برگر، بریانی اور مالٹے کا جوس نوش فرمایا۔
"حیرت کی بات بتاؤں”
"ہاں بتا میرے پیارے!”
"حیرت کی بات یہ ہے کہ سب پیسے اس نے دیے کیوں میں نے اپنے پاس تمام پیسوں سے اس کے لیے یہ گفٹ خرید لیا تھا”
گفٹ اپنے روم میٹ کو دکھاتے ہوئے بولا۔
شہزاد بائیک پہ تھا اسے پتا تب چلا جب مسلسل ہارن بجاتی ہوئی گاڑی نے ٹھوکر ماری کہ تم ٹریفک میں ہو لہذا ذرا ہوش کرو۔۔۔
"پیارے شہزاد! بتاو تو یہ جوتا میرے پاؤں میں کیسا لگا؟”
"تمھارے پاؤں اتنے پیارے ہیں کہ ان میں ہر رنگ کا جوتا بہت پیارا لگتا ہے”
"اچھا اچھا مکھن نہ لگاو، بتاؤ کون سا رنگ تمھیں پسند ہے؟”
"عاشی اے عاشی! پرپل لے گہر پرپل”
شہزاد نے اپنی پسند بتاتے ہوئے کہا۔
"ہمممممم چلو ٹھیک ہے پھر یہ بڑی ہیل والا جوتا بہتر ہے اس کا رنگ بھی پرپل ہے۔۔۔”
عاشی نے مسکراتے ہوئے جوتا خرید لیا۔
شہزاد کو بلا وجہ مسکراتا دیکھ کر دکان دار نے بریڈ کا پیکٹ ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا کہ کب سےبل اوپر والے لڑکے بریڈ لانے کا کہہ رہے ہیں تو شہزاد میاں جلدی اوپر پہنچیں۔۔۔۔
"عاشی! تمھارے ہاتھوں پر مہندی بہت اچھی لگتی ہے۔ خاص کر وہ جو انگلیوں کی پوروں پر لگاتی ہو۔ جی چاہتا ہے بس ان پیارے ہاتھوں کا دیکھتا رہوں۔ کبھی کبھار تو سوچتا ہوں کہ اگر شاعر ہوتا تو ضرور تمھارے ہاتھوں پر ایک خوب صورت نظم کہہ چکا ہوتا۔ ایک ایسی نظم کہ لوگ فیض کی نظم "رقیب سے” کو بھول جاتے۔ ایسی نظم کہتا کہ لوگوں کو نظم پڑھ کر تم سے والہانہ عقیدت ہو جاتی۔۔۔
عاشی! غصہ نہ کرو تو کیا میں تمھارے ہاتھ کو ایک بار صرف ایک بار دیکھ سکتا ہوں؟”
"کیا مطلب؟”
عاشی نے ہوچھا۔۔۔
” نہیں کچھ نہیں۔۔۔میرا۔۔۔مطلب ۔۔۔وہ۔۔۔میں۔۔۔”
"کیا۔۔۔وہ؟؟؟؟
” چھو سکتا ہوں”
” ہاہاہاہا
( مسکراتے ہوئے ہاتھ شہزاد کے ہاتھوں میں تھماتے ہوئے)
بس اتنی سی بات اور اتنی گھبراہٹ۔۔۔یہ لو۔۔۔چھولو۔۔۔جی بھر جائے تو بتا دینا”
"عاشی! تم مسکراتے ہوئے حور شمائل معلوم ہوتی ہو یوں لگتا ہے جیسے کائنات کا سارا حسن تمھاری ہنسی میں سمٹ آ یا ہو اور تمھارے ہاتھوں میں بسی خوش بو، عرق گل کو شرماتی ہے”
"ہر چند خطائے بزرگاں گرفتن خطا است”
"سر! سر شہزاد! پلیز بتائیے گا اس فقرے کا کیا مطلب ہے سر سر۔۔۔۔”
طالبہ نے سبق کی ریڈنگ کرتے ہوئے سر شہزاد صاحب سے ، اپنے مہندی لگے ہاتھ کے اشارے سے اس جملے کا مطلب پوچھتے ہوئے تیسری بار مخاطب کیا۔۔

younus khayyal

About Author

9 Comments

  1. Ayesha Jamshaid

    نومبر 9, 2020

    👍👍👍Kamiyabi ki dua hamesha ap k sath h

  2. Kainat.A Student

    نومبر 9, 2020

    It’s very Nice .Prof. Abdullah Umar AlamMay Allah always bless you with success

    • گمنام

      نومبر 9, 2020

      آ پ کی محبتوں کا شکریہ

    • گمنام

      نومبر 9, 2020

      شکریہ کائنات

  3. Abdul whab

    نومبر 9, 2020

    ago
    It’s very Nice .Prof. Abdullah Umar AlamMay Allah always bless you with success

  4. MOM

    نومبر 9, 2020

    بہت خوب 👍

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

افسانہ

بڑے میاں

  • جولائی 14, 2019
  افسانہ : سلمیٰ جیلانی انسانوں کی کہانیاں ہر وقت ہواؤں میں تیرتی پھرتی ہیں یہ ان کی روحوں کی
افسانہ

بھٹی

  • جولائی 20, 2019
  افسانہ نگار: محمدجاویدانور       محمدعلی ماشکی نے رس نکلے گنے کے خشک پھوگ کو لمبی چھڑی کی