محمد حمید شاہد
کم آمیزی میرے مزاج کا حصہ بن چکی ہے۔سفر کے دوران تو میں اور بھی اپنے آپ میں سمٹ جاتا ہوں۔بعض اوقات یوں ہوتا ہے کہ میلوں سفر کر جاتا ہوں مگر ساتھ بیٹھے مسافر سے رسمی علیک سلیک بھی نہیں ہو پاتی۔مگر وہ عجب باتونی شخص تھا کہ اس نے زورا زوری مجھے بھی شریک گفتگو کر لیا تھا۔
ماڈل ٹاؤن منتقل ہونے کے بعد مجھے ذاتی گاڑی پر روزانہ دفتر آنا جانا ترک کرنا پڑا کہ دفتر اور گھر کے بیچ لگ بھگ بیس بائیس کلو میٹر کا فاصلہ پڑتا ہے اور جو تنخواہ کٹ کٹا کر بچتی ہے، اس میں پٹرول اور گاڑی کے توڑ پھوڑ کے اضافی خرچ کی کوئی گنجائش نہیں۔
مجھے کئی سالوں کے بعد ذاتی گاڑی کی بہ جائے ویگن میں آنے جانے سے اُلجھن سی ہوتی ہے۔ کبھی کبھی تو ویگن کا اِنتظار اُلجھن سے کوفت میں بدل جاتا ہے۔
اور وہ ایسا ہی روز تھا۔
دفتر سے نکلا تو شدید ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں۔ ویگن سٹاپ تک پہنچتے پہنچتے بوندا باندی ہونے لگی۔ مجھے یوں زیادہ بھیگنا نہ پڑا کہ جلد ہی ویگن آ گئی۔
میں کوششیں کرتا ہوں کہ سب سے پچھلی نشست کے ایک طرف ہو بیٹھوں۔ یوں میں باہر کا نظارہ بھی کرتا رہتا ہوں اور باہر سے اندر آتی روشنی میں اخبار یا رسالہ بھی پڑھ سکتا ہوں جو عموماً سفر کے لیے ساتھ لے کر چلتا ہوں۔مگر اُس روز دائیں ہاتھ ایک میلا کچیلا آدمی بیٹھا ہوا تھا اور دوسری طرف لحیم شحیم شخص۔ مجھے مجبوراً بائیں جانب اسی شخص کے ساتھ بیٹھ جانا پڑا۔
میں عمومی اور اجنبی چہروں کو غور سے دیکھنے کا عادی نہیں ہوں۔سرسری نظر ڈالتا ہوں اور گزر جاتا ہوں۔ ہاں کوئی بہت دل کش چہرہ ہو تو نظر ٹھہر جاتی ہے۔
اُس کا بھی عام سا چہرہ تھا، کرخت اور بے ہودہ۔ مگر مجھے دیکھنا پڑا کہ یہ وہ شخص تھا جو میری پسندیدہ نشست پر بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے عادتاً اخبار اپنے دامن پہ پھیلا لیا۔ جلد ہی مجھے اندازہ ہو گیا کہ یہ میری بے سود کوشش تھی۔ اس شخص کا بے طرح پھیلا بدن شیشے سے چھن چھن کر آتی روشنی کو پوری طرح روکے ہوے تھا۔ میں نے جھنجھلا کر قمیض کے دامن سے عینک کے شیشوں کو رگڑ رگڑ کر صاف کیا مگر آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے کے باوجود الفاظ بصارت کی گرفت میں نہ آ رہے تھے۔ میں نے اخبار تہہ کر دیا اور نہ چاہتے ہوے بھی اس شخص کو دیکھا۔
وہ مجھے اپنی جانب متوجہ پا کر بے ہنگم مسکرا دیا۔
مجھے اس کی مسکراہٹ زہر لگی ، منھ پھیر لیا۔ میرے چہرے پر پھیلتی ناگواری کو محسوس کیے بغیر وہ کہنے لگا:
’’یہ آپ نے اچھا کیا بھائی صاحب، آخر اخبار میں ہوتا کیا ہے۔ حکمرانوں کے جھوٹے وعدے، سیاستدانوں کے لمبے چوڑے بیانات، قتل، چوری، ڈکیتی اور اغوا کی خبریں۔ اللہ قسم میں اخبار دیکھتا ہوں تو خوف سے ابکائیاں آنے لگتی ہیں۔‘‘
باہر زور کی بارش ہونے لگی اور ویگن میں جو بھی مسافر داخل ہوتا، پانی میں تر بتر ہوتا۔ میری دوسری جانب اب جو مسافر آیا، اس سے بھی پانی نچڑ رہا تھا۔ میرے ساتھ بیٹھنے لگا تو میں کھسک کر اس لحیم شحیم شخص کے ساتھ لگ گیا، جو میرے مطالعے کا شغل منقطع ہونے پر خُوشی کا اِظہار کر چکا تھا۔
اُس کے چربی چڑھے بدن سے گرمی کے ہُلے اُٹھ رہے تھے۔ مجھے اُس کے بدن سے جا لگنا خُوشگوار لگا۔
اب وہ کنڈیکٹر سے اُلجھ رہا تھا۔
’’ارے او چھوٹے اب بس بھی کر۔ سواریاں تو پوری ہو چکی ہیں۔ اب کیوں گھسیڑے جا رہے ہو ہر ایک کو اندر۔ اب اور نہ بٹھانا کسی کو۔‘‘
کنڈیکٹر جان بوجھ کر اُس کی جانب متوجہ نہ ہو رہا تھا۔
وہ جھنجھلا کر بولا۔
’’دیکھیں نا بھائی صاحب! یہاں تو ہر طرف بگاڑ ہی بگاڑ ہے لوگوں میں بے حسی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ کسی کو کسی کی پروا نہیں۔ سواریاں ٹھسی بیٹھی ہیں مگر ان کی ہوس ختم نہیں ہوتی۔ دیکھیں نا۔۔۔!‘‘
اتنا کہہ کر وہ رک گیا۔ میرے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر پوچھنے لگا۔
’’کیا نام بتایا تھا آپ نے ؟‘‘
حالاں کہ نہ اُس نے پہلے مجھ سے نام پوچھا تھا، نہ ہی میں نے بتایا تھا۔ بہ ہر حال میں نے اپنا نام بتایا تو وہ کہنے لگا:
’’جی عاطف صاحب!آپ ان کی نظر میں عاطف نہیں، نہ ہی میں ان کی نظر میں ہاشم ہوں۔ ہم محض کرنسی نوٹ ہیں۔ اور یہ جو میرے اور آپ کے منھ پر کان، ناک اور ہونٹ ہیں نا!یہ فقط نوٹ پر چھپے نقش و نگار ہیں۔‘‘
میرے اندر سے بے اختیار ہنسی چھوٹی اور ہونٹوں پر پھیل گئی۔
اب وہ مجھے میرے نام سے پکار پکار کر گفتگو کر رہا تھا۔ میرے ہونٹ جو ابھی مسکراہٹ کے لیے کھلے تھے اب ’’ہاں ہوں‘‘ بھی کرنے لگے تھے۔
’’دیکھیں نا جی عاطف صاحب ! ایسا نفسانفسی کا دور چلا ہے کہ کسی کو کسی کی پروا نہیں۔ آپ ماڈل ٹاؤن میں ہی رہتے ہیں نا؟‘‘
یہ وہ مجھ سے پوچھ رہا تھا۔ اس طرح کے سوالات وہ وقفے وقفے سے، بغیر کسی تمہید کے میری جانب پھینک کر، مجھ سے میرے بارے میں بہت سی معلومات حاصل کر چکا تھا۔ ان سوالات نے مجھے چوکنا ہو کر اُس کی گفتگو سننے پر مجبور کر دیا۔
اُسے جب یہ معلوم ہو گیا کہ میں ماڈل ٹاؤن میں ہی رہتا ہوں تو وہ کہنے لگا:
’’یہ عجب شہر ہے عاطف صاحب ! ادھر والے ادھر والے کی خبر نہیں۔ ادھر والا ادھر والے کو نہیں جانتا۔ آتے جاتے ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں مگر نام تک نہیں پوچھتے۔ ابھی کل ہی کی لیں، میری بیوی درد کی شدّت سے تڑپ رہی تھی۔ میں پڑوسیوں میں سے کسی کو نہ جانتا تھا۔ ہفتہ بھر پہلے ماڈل ٹاؤن میں منتقل ہوا تھا۔ ایک ہفتے میں بھلا میں کیسے جان پاتا؟ پریشانی سے تو میرے پسینے چھوٹ گئے۔ پہلے بھی آپریشن سے صبیح پیدا ہوا تھا۔ اب اللہ جانے کیا ہو؟ ادھر قریب کوئی نرسنگ ہوم یا ہسپتال بھی نہیں ہے۔ جو ہے بھی تو میں نہیں جانتا کہاں ہے ؟ اس پریشانی میں کئی دفعہ دروازے تک گیا اور واپس پلٹ آیا۔ ہر بار بیوی مجھے کچھ نہ کچھ کرنے کو کہتی مگر میں کیا کرتا؟ آخر کہنے لگی، یہ ہمارے پیچھے جو سمیرا رہتی ہے نا، اُس کا میاں ڈاکٹر ہے اُسے بلا لاؤ۔
’’یہ سننا تھا کہ میری جان میں جان آئی، عاطف صاحب! یہ جو عورتیں ہوتی ہیں نا! یہ ہم مردوں سے زیادہ سوشل ہوتی ہیں، جلد تعلقات بنا لیتی ہیں ایک دوسرے سے۔ ایک ہی ہفتے میں سمیرا سے اس کی دو ملاقاتیں ہو چکی تھیں اور اِن ملاقاتوں میں جو تعلقات بنے تھے، ان کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب کو میں گھر لے آیا۔ اُنہوں نے انجکشن لگایا۔ رات چین سے کٹی۔ ورنہ اللہ جانے آج صبح میں اُسے ہسپتال لے بھی جا سکتا یا۔ اللہ معاف کرے۔ یہ جو تعلقات اور میل جول ہے نا عاطف صاحب ! یہ بہت ضروری ہے۔ مگر عجب زمانہ آ لگا ہے جی کہ میلوں سفر کر جاتے ہیں مگر ساتھ بیٹھے مسافر سے ایک لفظ تک نہیں کہتے۔ گھر کی دیوار سے دیوار ملی ہوتی ہے مگر نہیں جانتے کہ ساتھ والا کرتا کیا ہے ؟ عجب بے گانگی ہر طرف پھیلی ہوئی ہے۔‘‘
مجھے یوں لگا۔ اب وہ براہ راست مجھ پر چوٹ کر رہا تھا۔ میں جھینپ کی مسکرانے لگا۔ اسی لمحے ویگن والے نے ماڈل ٹاؤن کا نعرہ مارا۔ ویگن رُکی۔ میں چند سواریوں کے بعد نیچے اُترا اور ایک طرف کھڑا ہو گیا کہ وہ بھی اُترے تو اس سے ہاتھ ملاؤں اور خدا حافظ کہوں۔
وہ بھاری بھرکم جثے کی وجہ سے سواریوں کو اِدھر اُدھر دھکیلتا باہر اترا۔ سانس درست کیا۔ اِسی اثنا میں، میں نے اپنا ہاتھ اُس کی جانب بڑھایا اور خدا حافظ کا لفظ ابھی ہونٹوں سے نہ پھسلا تھا کہ وہ بائیں جانب مڑا، سرسری سی نگاہ میری جانب پھینکی اور جھولتا ہوا، میرے ہاتھ کو دیکھے بنا چل دیا۔