افسانہ

خوش بخت : فریدہ غلام محمد

"عورت بےوفا نہیں ھوتی دراصل جس مٹی سے اس کا خمیر بنتا ھے اس میں مٹ جانے کا عنصر موجود ھوتا ھے ۔وہ مٹی ھو جاتی ھے مگر جس کھونٹی سے باندھ دیا ۔اس کی رسی کھول بھی دو وہ وہاں سے نہیں ہلے گی۔”
خوش بخت نے میرے سامنے چائے اور سگریٹ کی ڈبیا رکھی۔
"زرغونہ سیگریٹ نہیں پیتی خوشی”
اوہ اچھا ۔اس نے سگریٹ سلگا کر منہ کو لگا لیا۔
ہم کہیں ایسی جگہ بیٹھ سکتے ہیں جہاں سے شام اور رات کا ملن دیکھ سکیں اور تمہارے شہر کی جلتی بلتی بتیاں بھی ؟
میں نے سکون سے پوچھا تو وہ ایک دم میرا ہاتھ پکڑ کر بالکونی پر لے آئی جہاں دو خوبصورت کرسیاں پہلے سے رکھی ھوئی تھیں
شام کہساروں کی واہ کتنا دلنشیں منظر تھا
میں نےگہرا سانس لیا ۔سورج پہاڑ کی اوٹ میں چھپتا جا رہا تھا اور گھروں کی جلتی بتیاں اور کہیں چمنی سے نکلتا دھواں ۔یہ منظر تو اس کی کمزوری تھے ۔اسی لئے ثوبان نے ساتھ والا گھر اسے خرید دیا تھا ۔کچھ ہی دن پہلے اس کی ملاقات خوشی سے ھوئ تھی ۔ مسز جہاں آرا نے سب فرینڈز کو ڈنر پر بلایا تھا وہاں اس نے خوشی کو دیکھا ۔وہ انتہائی حسین عورت تھی ۔سیاہ لانبے بال کھلے چھوڑ رکھے تھے ۔سیاہ رنگ کی جھلمل کرتے ستاروں سے مزین ساڑھی میں چہرہ دمک رہا تھا ۔مگر مجھے تو وہ غم کی تصویر لگی تھی ۔سب کے ساتھ ہنستی تو سیاہ مدھ بھری آنکھوں میں ستارے جھلمل کرتے نظر آتے ۔میں ٹھہری نفسیات دان۔ آج میرا مشاہدہ وہ تھی ۔میں اس کو خاموشی سے دیکھ رہی تھی ۔کھانے کے بعد ایکسکیوز می کہتی وہ ذرا پرے ہٹ کر بیٹھ گئی۔
تب سکون سے اس نے سگریٹ سلگایا اور کش لینے لگی ۔
اس کو سگریٹ کی لت ھے کسی نے شاید بتایا
میں سب کو خوش گپیوں میں مگن دیکھ کر اس کے سامنے جا بیٹھی ۔
"ہیلو خوشی”۔ ہائے زرغونہ اس نے میرا نام لیکر حیران کر دیا ۔
"ارے میرا نام آتا تھا آپکو”؟
ہاں اب مستی میں تو نہیں تھی ،ہوش سلامت تھے میرے اس نے قدرے تلخی سے جواب دیا مگر میں نے بہت جلد اس کو باتوں میں لگا لیا میرے اندازے کے مطابق وہ چالیس سے اوپر تھی ۔کوئی غم تھا جو اسے اندر ہی اندر کھائے جا رہا تھا ۔وہ شادی شدہ تھی ۔بظاہر تو کوئ ایسی بات نظر نہیں آئی کہ اسے کوئی مسلہ ھو۔
میاں امیر تھا ،ایک بیٹا تھا جو یو ۔کے میں پڑھ رہا تھا ۔گھر میں نوکر چاکر تھے ۔اس کے بعد میں اس کے گھر بھی گئ تھی اور اس کے میاں سے بھی ملاقات ھوئ ۔چاند سورج کی جوڑی تھی ۔ہاں یہ ضرور تھا وہ اپنے میاں کے سامنے بھی سگریٹ کے کش لے رہی تھی ۔جب میاں کو اعتراض نہیں تھا تو میرے شوہر کی رائے کے مطابق اس پر زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں بلکہ چنداں ضرورت نہیں ھے ۔مجھے یہاں ایک ماہ اور رہنا تھا یہاں پھر مجھے بچوں سے ملنے امریکہ جانا تھا ۔
ہم نے خاموشی سے سورج کو گم ھوتے دیکھا
دونوں چپ تھے اچانک وہ بولی
"لو مر گیا سورج”وہ دھیرے سے بولی
میں کچھ پوچھوں تم سے؟
"اتنے دن سے جو یارانہ بنایا ھے آخر پوچھنے کے لئےنا” اس نے میری آنکھوں میں جھانکا اور کھلکھلا کر ہنس پڑی ۔
"تم کہہ رہی تھی عورت بےوفا نہیں ھوتی؟”
"ہاں بےوفائی سکھا دی جاتی ھے وگرنہ سچی میں عورت بےوفا نہیں ھوتی زری ۔”
تم نے کس سے بےوفائی کی ؟
شوہر سے اس نے سکون سے جواب دیا اور کرسی کی بیک پر سر رکھ دیا ۔
میں نے اس سے بہت ٹوٹ کر پیار کیا ۔اس کی ہر بات مانی ۔جو کہا کیا ۔ہم نے بڑے خوبصورت پل ساتھ گزارے ہیں ۔مجھے یاد نہیں کہ کبھی بھی ہم نے ایک دوسرے کے بغیر کھانا کھایا ھو۔
مگر زری عورت بڑے کمال کی شے ھے اس کی ایک ایسی حس ھوتی ھے جو مرد نہیں جانتے
۔ساتویں حس ۔
مجھے یاد ھے وہ کب بدلنا شروع ھوا یا یوں کہہ لو کب بےوفائی کا پہلا صفحہ پڑھ کر آیا

تب میں بھی فیشن ڈیزائنر کے طور پر کام کر رہی تھی ۔۔
اس نے دیر سے گھر آنا شروع نہیں کیا مگر اب یہ بھولتا جا رہا تھا ۔میں اس کے لئے تیار ھوئی ھوں ۔آج خاص طور پر اس کی پسند کا کھانا پکایا ھے ۔صدمے کا پہاڑ تو تب ٹوٹا جب اس کو شادی کی سالگرہ بھی یاد نہ رہی ۔
میرا ایک کولیگ تھا ۔وہ ہمیشہ سے میرے ساتھ کام کر رہا تھا مگر اب مجھے اس کی موجودگی محسوس ھونے لگی ۔وہ میرا خیال رکھنے لگا ۔میں اکثر لنچ اس کے ساتھ ہی کر لیتی ۔اس کی باتیں مجھے اچھی لگنے لگیں ۔
شاید مجھے تو اس کے ساتھ محبت کا گمان ھونے لگا ۔اب میری مسکراہٹیں لوٹ آئیں تھیں
عبداللہ بورڈنگ میں تھا ۔ایک روز میں اس کے ساتھ عبداللہ کو ملنے گئی ۔دن گزر رہے تھے ۔

بول بول کر شاید وہ تھک گئی تھی ۔وہ چپ ھو گئی۔
میں نے بغور اس کا چہرہ دیکھا وہ کرچی کرچی تھا ۔وہ مضطرب تھی ۔بےسکون اور بہت اداس ۔
"عورت بےوفا نہیں ھوتی ۔وہ تو مرمٹنے کے لئے بنی ھے مگر یہ مرد بڑے بےقدرے ہیں اسکو بےوفائی سکھاتے ہیں اور پھر ہرجائی پن کا طعنہ دیتے ہیں ”

کیا تمہارے شوہر کا کسی سے کوئی چکر تھا؟
پہلے تو بزنس میں مصروف پھر دولت زیادہ ھو جائے تو کہاں ہضم ھوتی ھے ۔بیوی سے زیادہ دوسروں کی بیویاں اچھی لگنے لگتی ہیں ۔
پہلی بار میں نے اس کو اپنے گھر کی نوکر کے ساتھ پکڑا تھا ۔
مجھے لگا میرے گھر کی چھت دھڑام سے میرے سر پر گر گئی تھی ۔میں ساکت ھو گئی تھی ۔مجھے یاد ھے تب اس نے مجھ سے معافیاں مانگیں ۔میں نے اپنے گھر کے سکون کے لئے اسے معاف کر دیا۔
تب اس نے ایک دن سگریٹ دی اور کہا چلو مجھے کمپنی دو ۔میں نے سگریٹ ایسے تھام لی شاید اس کو پی لینے سے میرا شوہر صرف میرا رہے گا ۔
میں نے کارڈ سیکھے ۔ہم دونوں رات گئے تک کارڈ کھیلتے ۔میرا سارا غصہ ختم ھو چکا تھا مگر اس کے منہ کو حرام لگ گیا تھا ۔حرام پیتا تھا ،حرام برتتا تھا ۔میں نے احتجاج کرنا بند کر دیا تھا زرغونہ ۔میں نے سمجھوتہ کر لیا تھا ۔
اس کی دیوانگی نہیں رہی تھی مگر میری فرزانگی باقی تھی ۔میں روتی تھی ۔سسکتی تھی۔تڑپتی تھی لیکن یہ پتہ تھا گھر بچانا ھے ۔
میں نے کشتی کو لہروں کے حوالے کر دیا ۔اب میرے دوستوں میں مرد وعورت سب تھے ۔
کسی کے شانے پر سر رکھ کر رو لیا ۔کسی کا ہاتھ تھام کر دو قدم چل لیا لیکن میں نے کہا نا عورت کی بنت وفا اور حیا سے ھوئی ھے ۔مجھے شدت سے احساس ھونے لگا میں خود پر ترس کھانے لگی ھوں ۔ہر ایک کو حالات بتانا ۔ہمدردی سمیٹنا ۔پھر میں ڈر گئی ۔مجھے لگا میں تماشا بن رہی ھوں اور سچ بھی ھے ہر کوئی ایسے میں تماشائ ہی ھوتا ھے ۔میں تو ٹوٹ گئ تھی نا ۔جو بھی آسرا دیتا تھا مجھے ڈھارس ملتی تھی لیکن یہ غلط تھا اسی لئےمیں نے جاب چھوڑ دی اور یہاں چلی آئی۔وہ ہر ہفتے آ جاتا ھے ۔عبداللہ بھی چکر لگا لیتا ھے مگر اب میرا حلقہ احباب یہی ھے کیونکہ میں ایک بات سمجھ گئی تھی ۔دوسرا مرد آپ کی دلجوئی کرے گا۔ہمدرد بنے گا مگر عزت نہیں کرے گا ۔
میں نے خود سے بڑی جنگ لڑی ھے اور خود کو ہرایا ھے ۔میں نے خود کو توڑ کر جوڑا ھے ۔میں نے اپنی مٹی سے بےوفائی اور بےحیائی کی ملاوٹ کو ختم کیا ھے ۔اب یہ صاف اور معطر ھے ۔سوچ رہی ھوں سگریٹ بھی چھوڑ دوں اور مجھے یقین ھے چھوڑ دوں گی ۔کل کو بہو آئے گی اس کے بچے ھوں گے تو دل بہل جائے گا۔انھیں پوری سچائی سے لوٹنا ھو گا تو لوٹ آئیں گے مگر اب مجھے کسی کی طرف نہیں دیکھنا ۔مجھے اب جینا ھے جیسے پہلے جیتی تھی ۔یہ کہہ کر وہ خاموش ھو گئی ۔

میں اس کو سنتی رہی وہ واقعی خوش بخت تھی ۔وہ ٹیڑھے راستوں سے پھر سے سیدھے راستے کو ڈھونڈ لائی تھی ۔
"اب بتاؤ اگر مرد اپنی بیوی کو توجہ دے تو کیا وہ کبھی بھی کسی اور کا منہ دیکھے گی؟”
کبھی بھی نہیں خوشی ۔میں نے اسے گلے سے لگا لیا۔
دور گھروں کی جلتی بلتی بتیاں امید کا استعارہ لگ رہی تھیں ۔

خوشی اور میں آج بھی دوست ہیں ۔اس کے دو پوتے ہیں ۔عبداللہ بہت ہی پیارا بیٹا ھے اس کا ۔اب تو حسان بھائ بھی سدھر گئے ہیں لیکن خوشی ان باتوں سے بے نیاز ھے ۔زیادہ وقت عبادت میں صرف کرتی ھے ۔عبداللہ کو ہمیشہ کہتی ھے اگر وہ بیوی کا خیال رکھے گا تو زندگی بھر بیوی کو اپنا دیوانہ پائے گا۔اس پر حسان اپنا سر جھکا لیتے ہیں مگر میں بہت خوش ھوں کہ میری دوست ایک پرسکون زندگی گزار رہی ھے ۔

 

younus khayyal

About Author

1 Comment

  1. حماد

    مارچ 19, 2021

    بہت خوب

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

افسانہ

بڑے میاں

  • جولائی 14, 2019
  افسانہ : سلمیٰ جیلانی انسانوں کی کہانیاں ہر وقت ہواؤں میں تیرتی پھرتی ہیں یہ ان کی روحوں کی
افسانہ

بھٹی

  • جولائی 20, 2019
  افسانہ نگار: محمدجاویدانور       محمدعلی ماشکی نے رس نکلے گنے کے خشک پھوگ کو لمبی چھڑی کی