افسانہ

حشرکامیدان : فریدہ غلام محمد

آج اس نے بڑی لگن سے اپنے چھوٹے سے صحن میں جھاڑو ماری تھی ۔ہلکا ہلکا پانی کا ترکاو کیا۔کمرے کو صاف کیا ۔ایک بڑا پلنگ ،چھوٹا شیشہ اور ایک صندوق کے سوا کیا رکھاتھا مگر انھیں بھی خوب صاف کیا ۔گھڑے کو بھر کے رکھا ۔پو پھٹنے ہی والی تھی ۔چودرائن سے لسی بھی لے آئی تھی ۔دو روٹیوں کا آٹا پڑا تھا ۔اسے گوندھا اور ساتھ والوں کے تندور سے پکا کر چنگیر میں رکھیں ۔محمد بخش کی روٹی پر تھوڑا سا مکھن رکھا جو چودرائن نے لسی میں ڈال دیا تھا ۔محمد بخشا ہاتھ منہ دھو لے ۔ناشتہ تیار ہے ۔اس نے لسی جگ میں ڈالتے ہوئے اسے پکارا ۔محمد بخش جاگ ہی رہا تھا فوراً اٹھ گیا ۔
وہ جلدی جلدی گڈوی دھونے لگی ۔”لے آ زلیخا
اچھا اچھا
اس نے جھٹ روٹی اور لسی کا گلاس اس کے سامنے رکھا
"یہ کیا زلیخاں ؟ایک پکا لیتی سارا آٹا ختم کر دیا ہو گا "تو کیا ہوا محمد بخشا اور آ جائے گا آج "اس نے چنگیر سے روٹی کا نوالہ بنا کر اسے دیا
کہاں سے آ جائے گا؟
بھول جاتا ہے نا تو سرکار جو مفت آٹا دے رہی ہے نا وہ آج ہی تو لینے جانا ہے ”
اچھا اچھا لا پھر پیٹ بھر کے تو کھاؤں ۔اس کی آواز میں شرساری آ گئی ۔
یہ چھوٹا سا ویڑا اتنا صاف کیا تو نے
گھڑا بھرا پھر لسی بھی لے آئی میں بھی کہوں زلیخاں اتنی خوش تو سجاول کے آنے ہر ہوتی تھی کہیں آج ؟
بس کر دے محمد بخشا بس
اس نے روٹی چنگیر میں رکھ دی
زلیخاں نے محمد بخش کے آنسو نہیں دیکھے تھے یا وہ دیکھنا نہیں چاہتی تھی ۔مگر وہ تو اس کا پیلا پڑتا چہرہ دیکھ رہا تھا ۔وہ ماں تھی جس کو رب نے خاص طور پر اولاد کے لئے انوکھا بنایا ہے ۔بیٹا ناراض ہو جائے تو بھی روتی ہے خوش ہو تو پڑھ پڑھ کر پھونکتی رہتی ہے اللہ سوہنڑے میرے بچے کو ہر طرح کی نظر سے بچا لینا
سجاول مر جاتا تو شاید اسے صبر آ جاتا مگر اسے تو دنیا کی روشنیاں نگل گئ تھیں ۔
"زلیخاں رزق کی عزت کرتے ہیں چل کھا شاباش تو نے پوری دس جماعتیں پڑھیں ۔میں تو ان پڑھ کسان ہوں ۔تجھے تو زیادہ سمجھ ہے”
زلیخاں نے دوپٹے سے آنسو صاف کئے اور چھوٹے چھوٹے نوالے لینے لگی ۔
ناشتے کے بعد اس نے برتن دھو کر رکھے ۔استری کیا ہوا صاف ستھرا جوڑا نکالا ۔بالوں کا چھوٹا سا جوڑا بنایا اور سر کو دوپٹے سے ڈھانپ لیا ۔
محمد بخش بھی تیار تھا ۔
کنڈا لگا کر اس نے ہمسائی کو گھر کا خیال رکھنے کو کہا اور دونوں سڑک کے کنارے درخت کے نیچے جا بیٹھے ۔بس نے دس بجے آنا تھا ۔سفر زیادہ نہیں تھا ۔محمد بخش کی ٹانگ میں درد رہتا تھا ۔اسی لئے اس نے بہتر سمجھا کہ بس میں چلیں جائیں ۔
دو اور لوگ بھی تھے شاید وہ بھی سینٹر جا رہے تھے ۔انھیں بھی آٹا چاہیے تھا۔
"سجو اوہ سجو
جی اماں
اماں صدقے جائے زیادہ دھوپ میں نہ پھرا کر
اتنا تو گورا ہوں ۔گھبرا کر گالوں پر ہاتھ پھیرتا
"اچھا چل ماسڑ صاحب کے پاس چھوڑ آوں”
"اماں یہ پڑھائی کس نے بنائی تھی ؟”
اتنا معصوم سوال وہ ہنس پڑتی ”
پتہ بھی نہیں چلا وہ پڑھ گیا
مگر اس کے باہر جا کر پڑھنے کی خاطر جو تھوڑی بہت زمین تھی ۔بک گئ ۔محمد بخش کہتا رہا
"بس کر زلیخاں میں اس کے تیور پہچان گیا ہوں یہ پھر ہمارا نہیں بنے گا ۔
ارے کیوں نہیں بنے گا زلیخاں اور محمد بخش کا پتر ہے ”
آواز میں غرور آ جاتا ۔
آخری بار یہیں سے اسے رخصت کیا تھا ۔اس کا ماتھا چوما تھا ۔اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرا تھا ۔محمد بخش نے اسے یہیں آخری بار سینے سے لگایا تھا ۔
بڑا انتظار کیا وہ نہیں پلٹا
اڑتی اڑتی خبر ملی تھی وہ واپس آ گیا ہے بڑا افسر بن گیا ہے اور شادی بھی کر لی اس نے
اس روز دونوں بہت روئے تھے ۔
میں کہتا تھا نہیں آئے گا
"اچھا چل روتے نہیں ہم دعا کرتے ہیں” اس نے اپنے آنسو صاف کیے۔محمد۔بخشاوہ جہاں رہے بس خوش رہے دیکھ ہم سےوہ تعلق نہ بھی رکھے تو کیا یہ تو خدا نے بنایا ہے نا یہ خدائ ٹانکا وہ توڑ تو نہیں سکتا اور نہ ہم انکار کر سکتے ہیں
پھر جیسے دونوں صبر میں آ گئے ۔وہ لوگوں کی گندم صاف کر لیتی ۔کسی کی کپاس چن لیتی ۔کسی کے گھر کو مٹی سے لیپ کرنا ہوتا وہ کر دیتی ۔کبھی پانی کے گھڑے بھر آتی محمد بخش بھی باہر سٹے بھونتا ۔دونوں کی ضروریات اتنی نہ تھیں ۔اس لئے وقت گزر رہا تھا ۔کچھ لوگ طعنے بھی دیتے اور کچھ آسرا بھی بنتے ۔ان دونوں کو کسی سے گلہ نہیں تھا ۔کھوٹ ان کی اولاد میں تھا ۔وہ کیوں شکوہ کرتے
"کہاں کھو گئ آو بس آ گئ” ۔محمد بخش کی آواز پر چونکی دونوں بس میں بیٹھ گئے تھے ۔شکر ہے بیٹھنے کی جگہ مل گئی تھی ۔
کنڈکڑ صدائیں لگا رہا تھا ۔شام کوٹ والے آ جائیں
اس نے محمد بخش کا ہاتھ پکڑا اور دونوں نیچے اتر آئے
مگر یہ کیا پورا ایک میدان لگا تھا ۔لوگ ہی لوگ
"کیا قیامت آگئی محمد بخشا ؟”
"نہیں آئی تو نہیں مگر یہ بھی اس سے کم تو نہیں
مولوی بتایا کرتے تھے ایسا ایک میدان ہو گا اور مخلوق ہو گی ۔خدا کا تخت سجے گا ۔ہے نا” ؟اس نے تائیدی نظروں سے اسے دیکھا
"ہاں مگر ابھی تو مخلوق پر دنیا کے خداؤں نے روٹی بند کر رکھی ہے ۔ابھی تو سب روٹی کی بھوک لئے یہاں جمع ہوئے نجانے کتنے ابھی بھی خالی ہاتھ جائیں گے ۔”اس کی آواز میں دکھ تھا .اچھا چھوڑ یہ سب ”
زلیخاں نے ادھر ادھر دیکھا ۔دیوار کے ساتھ چھاؤں تھی ۔
"دیکھ تو نے یہاں سے ہلنا نہیں ہے بس دیوار سمجھ خود کو
میں جا کر فارم بھر لوں ”
اس نے چادر سے آدھا چہرہ ڈھک لیا ۔محمد بخش اسے روک نہیں سکا ۔
وہ لوگوں کے بیچ میں سے راستہ بناتی اسٹیج کے قریب پہنچ گئ جہاں رجسٹر رکھا تھا ۔اس نے بٹوے کے ساتھ پن بھی پکڑ رکھا تھا ۔دس جماعتوں کا کیا فائدہ اگر اسے انگوٹھا لگانا پڑے

اعلان ہو رہا تھا کہ یہاں کے اسٹنٹ کمشنر آٹا بانٹنے کا افتتاح کریں گے ۔گاڑی رکی اور ایک بھرے جسم کا لمبا اونچا بانکا سجیلا جوان نکلا
سجاول اس کے لب تھر تھرائے ۔ایک لمحہ کو دل دھڑکنا بھول گیا ۔

گھبرا کر پیچھے دیکھا کہیں محمد بخش تو نہیں دیکھ رہا مگر وہ بہت پیچھے رہ گیا تھا
بی بی انگوٹھا نہیں لگانا
ہرکارے کی آواز میں کافی غصہ تھا
اس نے سامنے کھڑے افسر کو دیکھا جو ادھر ادھر دیکھ رہا تھا ۔
"انگوٹھا کیوں دستخط کروں گی میں

لاو کدھر کرنے ہیں دستخط "؟وہ بھی رعب سے بولی تھی
افسر چونکا
اس نے سکون سے دستخط کئے اور پھر آگے بڑھنے لگی
"کہاں جا رہی ہو مائی ؟”
ہرکارے نے اس کا بازو پکڑا
"چھوڑ مجھے ”
اس نے ہرکارے کو دھکا دیا ۔
"اپنے اسٹنٹ کمشنر سے کہو پہلی بوری مجھے دے ”

اب وہ سجاول کے بالکل سامنے تھی ۔سجاول کی آنکھیں اس سے ملیں اور جھک گئیں ۔
"آنے دو انھیں” ۔۔اس نے اس کو روکا
"شکریہ آپکا صاحب ۔میرا شوہر بیمار ہے اسے ایک دیوار کے ساتھ بٹھا آئی ہوں۔اس آدمی سے کہیں میرے سر پر بوری رکھ دے ”
جزا و سزا کا وقت آ پہنچا تھا ۔وہ دنیا کے سامنے کیا کہتا اور ماں کے سر پر آٹے کی بوری یہ کیا ہو رہا تھا ۔اس کے چہرے ہر پسینہ آ گیا ۔گھبرا کر سامنے دیکھا ۔لوگ ہی لوگ بھوک ہی بھوک اور سامنے ماں کھڑی تھی۔ اس کی سزا کا عمل شروع ہو چلا تھا۔ بوری سامنے رکھ دی گئ جو اس نے بے ساختہ پہلے خود اٹھائی
ہرکارہ ہکا بکا رہ گیا۔
زلیخا نے دھیرے سے نم آلود آنکھوں سے اسے دیکھا
"صاحب یہ اندازہ لگا رہے ہو نا کہ یہ وزن میں اٹھا سکوں گی یا نہیں ۔جس نے جیتے جاگتے بیٹے کی جدائی جیسا بوجھ اٹھایا ہے اس کے لئے بوجھ کچھ نہیں ہے ”
وہ مسلسل چپ تھا ۔وہ ایک چیخ مار کر ماں کو اپنے دل کے ساتھ لگانا چاہتا تھا مگر اس وقت بےبسی اس پر قہقہے لگا رہی تھی۔
” تجھے غریب کا بیٹا کہلانے سے ڈر لگتا ہے نا اس لئے اپنا اور میرا بھی بھرم رکھ ۔چپ چاپ بوری میرے سر پر رکھ دے۔
اس نے سر آگے کیا ۔سجاول نے بوری رکھ دی ۔ساراعملہ پریشان تھا ۔یہ عورت آخر صاحب سے کیا باتیں کر رہی تھی
وہ بہت جلد ہجوم سے نکلتی محمد بخش کے پاس پہنچ گئی ۔چل محمد بخشا ۔۔اس کا ہاتھ پکڑ کر وہ سڑک پر آ کھڑی ہوئی ۔
"کتنا آٹا ہے ؟ دس کلو ”

"ہم کون سا زیادہ کھاتے ہیں یہ بہت ہے ہمارے لئے ”

ہاں ”

کیا ہوا”
کچھ نہیں محمد بخشا بس اندازہ ہو گیا کہ حشر میں میدان کیسے لگے گا ۔اپنے ،پرائے کیسے ہو جائیں گے ”
اس سے پہلے وہ کچھ بولتا بس آ گئی تھی ۔

 

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

افسانہ

بڑے میاں

  • جولائی 14, 2019
  افسانہ : سلمیٰ جیلانی انسانوں کی کہانیاں ہر وقت ہواؤں میں تیرتی پھرتی ہیں یہ ان کی روحوں کی
افسانہ

بھٹی

  • جولائی 20, 2019
  افسانہ نگار: محمدجاویدانور       محمدعلی ماشکی نے رس نکلے گنے کے خشک پھوگ کو لمبی چھڑی کی