افسانہ

بچہ پالنا


انشائیہ نگار: پروفیسرغلام جیلانی اصغر
            بچہ پالنا چنداں مشکل نہیں۔ شرط صرف اتنی ہے کہ بچے میں پلنے کی صلاحیت موجود ہونی چاہیے۔ کچھ بچے انتہائی غیر معقول ہوتے ہیں۔ وہ ابتداء ہی میں عدم تعاون کی پالیسی پر کار بند ہو جاتے ہیں۔ آپ بزرگان تعاون کو جتنا آگے بڑھاتے ہیں، وہ اتنا ہی پیچھے ہٹتے جاتے ہیں۔ اس معاندانہ رویہ کو سیاست کی زبان میں رجعت قہقہری کہتے ہیں۔ ایسی رجعت یوں تو بوڑھوں میں بھی پائی جاتی ہے لیکن اس کا انداز داخلی اور مزاج صوفیانہ ہوتا ہے۔ مثلا جب بوڑھا زندگی کی شورش یا بال بچوں کی یورش سے گھبرا جاتا ہے تو وہ اپنے اندر سکڑتاہے، وہ باہر کے شعوری سلف کو اپنے اندر کے غیر شعوری سلف میں چھپا لیتا ہے، تاکہ وقت کی دستبرداور ہم چشموں کی لگاوٹ سے محفوظ ہو جائے۔ لیکن بچہ فطرتاً نمائش پسند ہوتا ہے۔ وہ اپنے رویہ سے اپنے سلف کی نفی نہیں کرتا بلکہ اسے بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے اور آپ سے مکمل وفاداری بلکہ تابعداری طلب کرتا ہے۔ ادھر آپ نے اپنی چشم محبت میں ذرا سی زہر آلودگی کا مظاہرہ کیا، ادھر اس کی فضا یکسر مکدر ہوگئی اور احتجاجاً اس نے اپنی آمریت کا اس زور شو رسے اظہار کیا کہ محلے والوں اور والیوں نے آپ کے دروازے پر ہلہ بول دیا۔ ”خیر تو ہے۔ آپ منے کو کیوں مار رہے ہیں۔ آپ کو شرم نہیں آتی۔“؟ اگر خدا نخواستہ آپ بچے کے باپ نہیں، بلکہ دادا نانا قسم کی غیر پسندیدہ مخلوق ہیں، تو آپ پر ہر قسم کے الزام و اتہام لگائے جائیں گے۔ مثلا ً بوڑھا سٹھیا گیا ہے۔ آدم خور ہے۔ بچہ بیزار ہے وغیرہ وغیرہ۔ اگر حسن اتفاق سے ان صاحبان یا صاحبات میں سے کسی کو نفسیات سے معمولی سی بھی دلچسپی یا آگاہی ہوئی تو وہ لوگوں کو بڑے و ثوق سے بتائیں گے کہ آپ اپنے اندر کے ناآسودہ بچے سے منتقما نہ سلوک کر رہے ہیں۔ آپ کسی شدید نفسیاتی کمپلکس (Complex) کا شکار ہیں۔ آپ لوگوں کی اس سرزنش سے کبیدہ خاطر تو ضرور ہوں گے لیکن بچے سے آپ دست کش نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ اس طرح تو آپ محلے بھر میں بدنام ہو جائیں گے اور آئندہ کوئی بچہ آپ کے قرب و جوار میں بھی نہیں پھٹکے گا۔ یوں آپ بچے سے تو بچ جائیں گے لیکن آپ کی چنگیزیت او رمردم بیزاری مسلم ہو جائے گی۔
بچے کا آپ کے پاس نہ آنا، یا احتجاجاً آپ سے پرہیز کرنا، کوئی ایسی بری بات نہیں بلکہ المیہ یہ ہے کہ وہی معصوم بچہ جسے آپ بے ضرر سمجھتے تھے اجتماعی ستیہ گرہ کی علامت بن جاتا ہے۔ اس کے ماں باپ، ماموں، ممانی، خالہ خالو، غرضیکہ تمام جو فروش گندم نما قسم کے رشتہ دار فوراً آپ سے گریز کرنے لگتے ہیں او رجو کوئی جس شخص سے بھی ملتا ہے آپ کے خلاف زہر پھیلاتا چلا جاتا ہے، اس طرح آپ کے خلاف سرگوشی کی ایک مہم شروع ہو جاتی ہے، اور آپ شہر بھر میں بچہ دشمنی، سادیت، بربریت، قنوطیت کا ایک واضح سمبل بن جاتے ہیں۔ اگر بدقسمتی سے آپ چھوٹے موٹے شاعر بھی ہیں تو آپ کے کلام میں ایسے عناصر کی نشاندہی کی جاتی ہے جن میں معاشرہ کی اعلیٰ اقدار سے بغاوت کی بو آتی ہے۔ ہوتے ہوتے معاملہ یہاں تک پہنچتا ہے کہ سرمایہ دار آپ کو اشتمالی اور اشتمالی آپ کو سرمایہ دار کہہ کر گردن زدنی، کشتنی بلکہ سوختنی سمجھتے ہیں۔ اب آپ کا یہ عالم ہے کہ آپ سب سے چھپتے پھرتے ہیں او ربچہ اپنے پالنے میں آپ کی بزرگی او ربزدلی پر قہقہے لگا رہا ہے۔
میں نے ابھی کہا تھا کہ بچے کا پالنا چنداں مشکل کام نہیں لیکن شرط یہ ہے کہ بچہ مستقل مزاج اور دیدہ زیب ہو اور آپ سے پورا پورا تعاون کرے۔ بچے عام طور پر دو قسم کے ہوتے ہیں (حالانکہ ان کی مائیں کئی قسم کی ہوتی ہیں) یعنی دیدہ زیب او رمعقول حد تک دیدہ فریب۔ میں نے آج تک کوئی ایسا بچہ نہیں دیکھا جو اپنے ماں باپ سے زیادہ بد صورت ہو (وہ جو فرشتہ صورت بچوں
کا تذکرہ ملتا ہے دراصل انجمن اطفال کا پھیلایا ہوا ریکٹ ہے) خیر جہاں تک شکل و صورت یا مجموعی ہیئت کذائی کا تعلق ہے ہر بچہ گوارا ہوتا ہے، بشرطیکہ اس کا رویہ شریفانہ اور صحت مندانہ ہو۔ اچھے بچے اپنے پالنے والے کے اس حد تک تو ضرور ممنون ہوتے ہیں کہ اگر انہیں دودھ پلانے یا سلانے جگانے میں ذرا تاخیر بھی ہو جائے تو وہ صرف نظر سے کام لیتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ منہ لٹکا لیتے ہیں۔یوں بھی بچپن میں چہرہ اتنا سیال ہوتاہے کہ اسے دیکھ کر بچے کے موڈ کا تعین کرنا انتہائی مشکل کام ہوتا ہے۔ بہر کیف اگر اچھے بچوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ آپ انہی کے نان و نفقہ میں مصروف ہیں تو وہ ایک حد تک آپ سے تعاون کرتے ہیں۔ میری ایک پوتی اسی شریفانہ کیٹیگری سے تعلق رکھتی ہے۔ میں ان دنوں اپنی فرصت کے اوقات کا بیشتر حصہ اسے کھلانے پلانے، یا شعر سنانے میں صرف کرتا ہوں۔ چنانچہ جب میں شعری الہام کا ورد کرنے بیٹھتا ہوں تو وہ خاموشی سے میری گود میں سو جاتی ہے، مجھے اس وقت اس کی نیند کی گہرائی کا اندازہ ہوتا ہے جب میری گود سیراب ہو جاتی ہے اور ایک غیر معمولی سیال قسم کی گرمی کا احساس ہوتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں شاید یہ شعر کی گرمی اور توانائی کا اثر ہے، لیکن سچ تو یہ ہے کہ چھوٹے بچے چھوٹے ہی ہوتے ہیں اور ان کا ذوق شعر انتہائی رکیک ہوتا ہے۔ مجھے اس قسم کی دادِ سخن سے ذرا بھر بھی کوفت نہیں ہوتی کیونکہ شریف بچہ یا بوڑھا اگر کبھی معمولی سی غلطی یا حماقت کر بیٹھے تو معقول لوگ اسے نظر انداز کر دیتے ہیں۔ غلطی سے چشم پوشی، صلح جوئی او رعفو و در گذر کا رویہ موجودہ دور کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
اگر آپ کو مجلس اقوام عالم کی کسی میٹنگ کی کارروائی پڑھنے یا سننے کا اتفاق ہوا ہو تو آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ اس وقت عالمی بحران اور قوموں کی باہمی چپقلش کی وجہ سے صرف یہ ہے کہ متحارب گروہوں میں ایک دوسرے کو معاف کردینے کی صلاحیت کم سے کم تر ہوگئی ہے۔ حالانکہ دونوں گروہ اس امر کا اعتراف بھی کرتے ہیں کہ انسان غلطی کا پتلا ہے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کی غلطی سے صرفِ نظرکرنے کے لیے تیار نہیں۔ غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ متحارب گروہوں کے قائدین کو بچہ پالنے کا تخلیقی تجربہ نہیں ہوا جب آدمی بچہ پالتا ہے تو اس کی دلچسپی تعمیری ہوتی ہے۔ وہ ہر قسم کی تخریب سے کنارہ کس ہو جاتا ہے۔ وہ بڑی سے بڑی غلطی معاف کر دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ دراصل بچہ اس کے لیے ایک نئے دور کا عہد نامہ ہوتا ہے۔ وہ اس کے خد وخال میں آنے والے اس سنہری زمانہ کے نقش دیکھ رہا ہوتا ہے۔ جب معصومیت، خیر و برکت اور محبت و آشتی کا دور دورہ ہوگا۔ بچہ محض گوشت پوست کا ایک خوشنما پیکر ہی نہیں بلکہ وہ تو ایک ایسا یوٹوپیا ہے جس کی ہم صدیوں سے تلاش کر رہے ہیں۔ وہ ہمارے بے نام خوابوں کی ایک خوبصورت تجسیم ہے۔ بچہ تو ایک تجریدیت ہے، جسے گرفت میں لینے کے لیے اسے ناک سے سونگھنا، کان سے سننا اور پورے جسم سے محسوس کرنا ضروری ہے۔ بچہ دو غیر متوازی سمتوں کا مقام اتصال ہے جہاں آنے والے اور گزرے ہوئے زمانے آکر ملتے ہیں۔
بچہ جیسا میرے دوست ”و “ نے کہا ہے ایک مکمل سوشلسٹ ہے وہ خود مال و دولت، سیم و زر، ہر قسم کی مزروعہ اور غیر مزروعہ اراضی سے آزاد ہوتا ہے لیکن اس تہی دستی کے باوجود دنیا کی ہر چیز کو اپنی ذاتی ملکیت سمجھتا ہے۔ وہ خود کچھ بھی نہیں کماتا لیکن سب سے پہلے اور سب سے اچھا کھانا طلب کرتا ہے۔ نہ وہ کپاس اگاتا ہے اور نہ ہی ٹیکسٹائل مل چلاتا ہے لیکن عمدہ سے عمدہ لباس طلب کرتا ہے۔ اس میں دودھ دینے کی چنداں صلاحیت نہیں ہوتی لیکن دن بھر دودھ پیتا ہے چنانچہ مارکس جس جنت ارضی کی تلاش میں ہے، وہ دراصل انسانی معاشرے میں بچپنے کو دریافت کرنا ہے۔ اور جس سیاستدان کو اپنے بچپن کے سوا کسی اور بچے کو پروان چڑھانے کا تجربہ ہی نہیں، وہ کیسے جان سکتا ہے کہ بچے کا پالنا کتنا بڑا تخلیقی تجربہ ہے۔ غالبا یہی وجہ ہے کہ دنیا کے بیشتر سیاستدان خطِ استوار اور خطِ جدی کی تقسیم پہ لڑتے رہتے ہیں۔ ان کی تگ ودو اور جارحانہ سرگرمیوں کا سارا ماحصل یہی ہے کہ دنیا میں بچہ رہے اور نہ بچہ پالنے والا۔ بچہ پالنے سے گریز کرنا دراصل انسانی تہذیب اور امن و آشتی کو تباہ کرنے کی خواہش کا اظہار ہے۔جو آدمی خلوص نیت سے بچہ پالتا ہے وہ ایک ایسی معصوم دنیا کا خواب پال رہا ہوتا ہے جس میں خود فراموشی اور بے غرض محبت، خود پرستی اور غرض مندی کی جگہ لے لیتی ہے۔ میرا یقین ہے کہ اگر ہٹلر کا بچہ ہوتا یا وہ محض تفریح طبع کی خاطر گوبلز کا بچہ پال لیتا تو دنیا دوسری جنگ کی ہولناک تباہی سے بچ گئی ہوتی۔ اب بھی اس امر کی ضرورت ہے کہ دنیا کے جنگ پسند سیاستدان فوراً بچے پالنا شروع کر دیں۔ تیسری عالمی جنگ کو روکنے کے لیے اس سے بہتر، سادہ اور ارزاں اور کوئی ترکیب نہیں ہو سکتی۔
بچہ پالنا چنداں مشکل کام نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ نے اس بے ضرر جملہ سے یہ تاثر لیا ہو کہ بچہ ایک خود کار مشین ہے اور آپ کا کام محض دور بیٹھ کر اس کے پلنے کے عمل کو دیکھنا ہے یا زیادہ سے زیادہ یہ کہ جب کبھی اس مشین میں خرابی پیدا ہو جائے تو کسی کل پرزے کو کس دیں یا ذرا سا تیل دے دیں۔ بات اتنی آسان نہیں۔ بچے کو پالنے کے لیے گہری وابستگی انتہائی ضرور ی ہے۔ اگر آپ بچے کو فاصلے سے پالنے کی کوشش کریں گے تو آپ کی ناکامی یقینی ہے۔ یہ تو بالکل ایسا ہی ہے جیسے آدمی تنور سے دور بیٹھا روٹیاں لگا رہا ہو۔ بچہ پالنے کے چند بنیادی اصول ہیں جو آپ کو رہنمائے خانہ داری قسم کی کسی اچھی کتاب میں مل جائیں گے۔ کچھ اصول ایسے بھی ہیں جو میں نے بچہ بانی (باغبانی کے وزن پر) میں طویل ریاضت کے بعد اخذ کیے ہیں۔ مثلاً بچہ پالنے سے پہلے آپ کو اپنی بزرگی کو خیر باد کہنا ہوگا۔ آپ کی داڑھی نہیں تو آپ کو داڑھی بڑھانا پڑے گی (برناڈ شا کی داڑھی بطور ماڈل سامنے رکھیں) اگر آپ صاف ستھرا، بے داغ لباس پہنتے ہیں تو آپ کو بوژوا انداز بدلنا ہوگا۔ اگر آپ کے سر پر بال ہیں (خواتین اس قائدہ کلیہ سے مستثنیٰ ہیں) تو انہیں منڈانا پڑے گا، اگر آپ کلاسیکی موسیقی سے ناآشنا ہیں تو آپ کو موسیقی کا ذوق پیدا کرنا ہوگا۔ اگر آپ کو وقت پر سونے اور جاگنے کی عادت ہے تو آپ کو ان عادات کو بدلنا ہوگا الغرض آپ کو اپنے اندر سے ایک بچے کو برآمد کرنا ہوگا جو سالوں پہلے آپ کی مصروفیت یا لاپرواہی کی وجہ سے گم ہوگیا تھا۔ جب آپ کے اندر کا گم شدہ بچہ باہر آجائے گا تو وہ خود بخود پلنے والے بچے کا چارج لے لے گا اور آپ یہ دیکھ کر انتہائی مسرور ہوں گے کہ پہلے ہی دن دونوں بچے ایک دوسر ے سے اس قدر مانوس ہوگئے ہیں کہ آپ کا وجود غیر ضروری ہوگیا ہے۔ وہ توتلی زبان میں ایک دوسرے سے ہم کلام ہیں۔ ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں برابر کے شریک ہیں۔ جب ایک بچے کے پیٹ میں درد اٹھتا ہے تو دوسرا بچہ از خود بے تاب ہو جاتا ہے۔ جب ایک بچہ دودھ پیتا ہے تو دوسرا غیر شعوری طور پر اپنے ہونٹ چاٹنے لگتا ہے۔ یہ وابستگی جو پر اسرار بھی ہے اور گہری بھی۔ زندگی میں کسی اور سے پیدا ہی نہیں ہو سکتی۔ اس وابستگی میں کوئی ذاتی یا مالی فائدہ مدنظر نہیں ہوتا۔ اور نہ اس میں رسمی عشق یا محبت کا کھوٹ پن شامل ہوتا ہے۔
عشق جیسا کہ ہمارے مشرق میں رائج ہے، دراصل نرگسیت یا نمائش ذات کااظہار ہے اور بچہ پالنا خود فراموشی کو تج دینے کا عمل ہے۔ اس عمل کا اس وقت آغاز ہوتا ہے جب بچہ پالنے والے مصنوعی رکھ رکھاؤ او رذاتی وقار کے سارے تقاضوں سے بلند ہو جاتا ہے او ربچے کی ذات میں اس طرح سرایت کر جاتا ہے جیسے ناک کے راستے زکام۔ عام طور پر آغاز ہی میں پلنے والا بچہ پالنے والے بچے سے برابری یا رفاقت کی سطح پر اتر آتا ہے۔ وہ اس کی داڑھی کھینچتا ہے۔ بال نوچتا ہے۔ اس کے لباس پر رنگا رنگ نقش و نگار بناتا ہے۔ اس کی ہیئت پر قہقہے لگاتا ہے لیکن پالنے والا بچہ اس حسنِ سلوک پر کسی خفگی یا برہمی کا اظہارنہیں کرتا بلکہ خوشی سے سر شار ہو کر ناچنے لگتا ہے اور اس اپنائیت کا دوسروں سے بڑے فخر سے ذکر کرتا ہے۔ کیا عشق میں ذات کی ایسی نفی ممکن ہے؟ ایمان سے بتائیں کہ اگر محبوب یا محبوبہ آپ کی داڑھی کھینچ لے یا آپ کے گنجے سر پر ٹھونگا مار دے تو آپ کا کیا رد عمل ہوگا؟ ممکن ہے آپ میرے مشاہدات سے متاثر ہو کر بچہ پالنا شروع کر دیں۔ بظاہر یہ ایک نیک او رمفید کام ہے لیکن آگر آپ نے زندگی کے کسی مرحلہ پر سکڑنے اور سمیٹنے کا ریاض نہیں کیااور آپ کی شخصیت میں یک رخا پن ہے تو آپ بچہ پالنے سے احتراز کریں۔ اس سے بہتر ہے کہ آپ بیٹر پال لیں۔ بیڑ بچے سے اس حد تک مختلف ہوتا ہے کہ وہ دست آموز ہوتا ہے وہ آپ کے ہاتھ کی گرمی، سردی، نرمی، سختی کے مطابق اپنی ہئیت ترکیبی اور اپنے انداز فکر کو بدلتا رہتا ہے چنانچہ اس کی شخصیت میں بیٹر باز کی ساری شخصیت جھلکنے لگتی ہے۔ انجام کار بیٹر اور بیٹر باز کی شخصیت میں تمیز کرنا مشکل ہو جاتا ہے لیکن ہر بچہ اپنی ایک جداگانہ شخصیت لے کر پیدا ہوتا ہے اور بڑی سختی سے اس تشخص کی سا لمیت کوبرقرار رکھتا ہے۔ جونہی آپ اس کے مزاج کے خلاف کوئی کام یا حرکت کرتے ہیں تو وہ عدم تعاون بلکہ جارحیت کی پالیسی اختیار کر لیتا ہے۔ اسے جب یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ رات کو سونا پسند کرتے ہیں تووہ دن بھر سوتا ہے اور رات بھر روتا ہے۔ رونا اس کی طبعی ضرورت نہیں بلکہ محض بغاوت کے جذبے کا اظہار ہے۔ اسی طرح اگر آپ چائے یا کافی پینا پسند کرتے ہیں تو وہ دودھ پر اصرار کرتا ہے، اور اگر آپ دودھ پینے کے حق میں ہیں تو وہ دودھ پینے سے انکار کر دیتا ہے۔ غرض یہ کہ وہ ایک ایسا انفرادیت پسند ہے جو آپ کے وضع کردہ ضابطہ اخلاق سے رو گردانی کرتا ہے۔ اس کی بغاوت ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہوتی ہے اس لیے اگر آپ طبعاً صلح جو ہیں اور خانگی سکون کو اخلاق حسنہ پر ترجیح دیتے ہیں تو آپ کے لیے یہی بہتر رہے گا کہ آپ بچہ نہ ہی پالیں بقول اقبال
انہی کا کام ہے جن کے کہ حوصلے ہیں زیاد

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

افسانہ

بڑے میاں

  • جولائی 14, 2019
  افسانہ : سلمیٰ جیلانی انسانوں کی کہانیاں ہر وقت ہواؤں میں تیرتی پھرتی ہیں یہ ان کی روحوں کی
افسانہ

بھٹی

  • جولائی 20, 2019
  افسانہ نگار: محمدجاویدانور       محمدعلی ماشکی نے رس نکلے گنے کے خشک پھوگ کو لمبی چھڑی کی