فاروق سرور
ایک بہت بڑے جنگل میں برفباری تیزی سے ہورہی تھی اور ایک شاعر کیپ نما ٹوپی سر پر رکھے،موٹے سے دستانے پہنے، موٹا سا اوون کا اوور کوٹ پہنے، آدھے دن تک جنگل میں اس سخت اور خوفناک برفباری میں کسی آوارہ روح کی طرح ادھر ادھر پھرتا رہا۔دوپہر کو اس نے وہاں مٹی کی چھت اور دیواروں سے بنی ایک ایسی خالی کٹیا دیکھی ،جس کا کوئی دروازہ نہیں تھا۔
وہ اس خالی کٹیا کے اندر گیا، وہاں بیٹھا،اپنے کوٹ سے ایک چھوٹی سی ڈائری نکالی اور پھر برف کے متعلق بہت ساری پیاری پیاری سی نظمیں لکھ ڈالیں۔
کچھ دیر کے بعد اس نے کٹیا چھوڑی، دوبارہ برفباری کی طرف نکلا اور مزید نظمیں لکھنے کے لیے اس تیز سی برفباری میں مٹرگشت کرنے لگا۔
جب واپس آیا تو یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ اس نے اپنی ڈائری ،جو وہاں چھوڑی تھی یا اسے وہاں بھول گیا تھا، وہ وہاں سے غائب تھی اور کوئی اسے اس کی غیر موجودگی میں لے گیا تھا۔ڈائری کے غائب ہونے کا اسے بہت دکھ ہوا۔
اس نے بہت سوچا کہ اس کی غیر موجودگی میں اس کی نظموں کی ڈائری کو کون لے گیا ہوگا ،کس کے کام کی ہوگی یہ، لیکن یہ بات اور یہ معمہ آخر تک اس کی سمجھ میں نہیں آیا۔
رات کو ایک بڑے درخت کی شاخوں پر برف کی روشنی میں جنگل کے بہت سارے پرندے اکٹھے تھے، ان کے درمیان ایک بوڑھا سا طوطا بیٹھا ہوا تھا اور ان کو شاعر کی ڈائری میں لکھی ہوئی یہ تمام خوبصورت نظمیں، جو برفباری سے متعلق تھیں۔مزے لے لے کر سنا رہا تھا اور وہ تمام افیمیوں کی طرح اس پر جھوم رہے تھے۔
اب آخر میں بوڑھے طوطے نے ان سب سے پوچھا کہ جنگل کی برفباری کا سب سے اچھا دن کون سا ہوتا ہے؟
"جب شاعر جنگل کی سیر کو آئے ۔” سب نے مل کر جواب دیا۔