عید قرباں کے موقع پر قربانی کا گوشت تقسیم کر کے میں ابھی فارغ ہوا ہی تھا کہ دروازے پہ دستک ہوئی۔ میں نے دروازہ کھولا تو یہ پروفیسر میر جان صاحب تھے۔
انھیں لے کر میں اپنے گھر کے باغیچے میں بیٹھ گیا۔
وہ کافی بے چین دکھائی دے رہے تھے اور اسی بے چینی کے باعث انھوں نے کئی بار اپنے موبائیل فون کو دیکھا شاید کسی کی کال کے منتظر تھے۔
میرے دریافت کرنے پر وہ فورا گویا ہوئے جیسے میرے دریافت کرنے کا موقع تلاش رہے ہوں۔
ان کی بے چینی کی وجہ "سعدی” تھی۔ جو ہمارے ہی پوسٹ گریجوایٹ کالج میں ایم ایس سی زوالوجی کی سٹوڈنٹ تھی۔اس کا اصل نام یوں تو "سعدیہ” تھا مگر میر جان کی دی ہوئی عرفیت "سعدی” شہرت کی حامل ٹھہر چکی تھی۔اس لیے سبھی اسے "سعدی, سعدی” کہتے۔
میں اس بات کا چشم دیدہ گواہ ہوں کہ سعدی نے میر جان سے کس قدر محبت کی۔سعدی کی میرجان سے کی جانے والی اس قدر محبت کا قصور وار بھی میر جان ہی تھا کیوں کہ جب استاد باپ۔ماں۔بہن یا بھائی بننے کی سطح پر اتر آ تا ہے تب وہ مسائل کھڑے ہو جاتے ہیں کہ جن کی ممانعت اخلاقی اعتبارات سے کی گئی ہے۔
اس لیے استاد کو ہمیشہ استاد ہی رہنا چاہیے۔
میر جان کی اپنے سٹوڈنٹس سے بے جا کی جانے والی محبت کے باعث، وہ "سعدی” کے دل و دماغ کو ہائی جیک کر چکے تھے۔
کبھی کبھار انھیں "سعدی” کی آ نکھوں میں محبت نظر آ تی مگر وہ اسے اپنا وہم گردانتے ہوئے خاص توجہ نہ دیتے۔
سعدی کی ہم جولیوں نے اسے سمجھایا بھی مگر وہ ہمت نہ جٹا پاتی اس خوف سے کہ کہیں یہ بنا تعلق بھی کہیں برباد نہ ہو جائے۔آ خری سیمسٹر کے امتحانات چل رہے تھے کہ اک دن میر جان کو ایک انجانے نمبر سے کال موصول ہوئی۔ یہ سعدی تھی جس نے ڈرتے ڈرتے، روتے روتے ہمت جٹائی اور میر جان کے شک کو پک میں بدل دیا۔
میر جان نے بھی فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہہ دیا کہ اتنی سی بات بس!
مجھے بھی اپنے سٹو ڈنٹس سے محبت ہے اس میں کون سی بری بات ہے۔
اس قدر آ سودگی ملنے کے باعث وہ روزانہ کال کرنے لگی۔ میر جان بھی دل لگی کے باعث بات کرتا رہا۔
ایک دوسرے کو ایک دوسرے کی عادت سی ہونے لگی۔
یہاں تک کہ سلسلہ ملاقاتوں تک آ ن پہنچا۔
عاشق، معشوق بن جائے تو عشق، صادق ٹھہرتا ہے۔ یہاں بھی کچھ ایسا ہی معاملہ تھا۔
قریب تھا کہ دونوں رشتہ ازدواج میں منسلک ہو جاتے مگر معاشرے کی قدغن میر جان کے لیے سراپا مصیبت بنی ہوئی تھی۔
یہ قدغن سراپا دامن گیر ہی رہی یہاں تک کہ سعدی کا رشتہ اس کی پھوپھو کے بیٹے سے طے پا گیا جسے سعدی پچھلے دو سال سے ٹالے ہوئے تھی کہ شاید میر جان کی جانب سے کوئی مثبت اشارہ مل جائے۔
میر جان جو پہلے ہی محتاط تھا اب مزید محتاط ہو گیا جب کہ سعدی خامشی کا بت بنے سب "تماشائے کن” دیکھتی رہی یہاں تک کہ "حکم فیکوں” نازل ہوگیا۔
"پروفیسر سکندر صاحب! آ ج اس کی شادی کو ایک ماہ اور دس دن گزر چکے ہیں مگر ایک کال اور ایک میسیج بھی نہیں کیا۔ شادی کی رات بارہ بجے کال آ ئی جو میں نے یہ کہہ کر کاٹ دی کہ اب تمھارا سب کچھ تمھارا شوہر ہونا چاہیے۔بس اس دن سے آ ج تک کال نہیں آئی”
میر جان سب کچھ بتاتے چلا جا رہا تھا جب کہ میں اس کی جانب ٹکٹی باندھے دیکھ رہا تھا جو ابھی بھی موبائیل پر نظریں گاڑھے ہوا تھا کہ شاید کوئی میسیج یا کال آ جائے۔
Sonu jutt
اگست 2, 2020Outstanding afsana sir g mind blowing 👌👌👌👌
گمنام
اگست 2, 2020I’m Impressed
Ayesha Jamshaid
اگست 2, 2020I’m Impressed