افسانہ

اولاد : فریدہ غلام محمد

اس نے آخری گلاس دھو کر رکھا ہی تھا کہ آواز سماعتوں سے ٹکرائی ۔

’’خانسامہ چھٹی سے آگیا واپس۔۔۔؟‘‘

یہ شاید شاہانہ کے شوہر کی آواز تھی ۔۔۔ وہ بھی آگیا اور میری آپا بھی آگئیں ۔وہ چاہ رہی تھی ایک ہی سانس میں سب بتا ڈالے ،کہیں خوف تھا پتہ نہیں منیب کیا کہے۔ وہ اس کا شوہر تھا تب ہی اس نے چونک کر پوچھا۔۔۔۔۔ہیں کون سی آپا۔ ؟۔۔۔۔ میری چھوٹی خالہ کی دوست بھی ہیں ۔۔انتہائی پرہیزگار ہیں ۔۔۔۔ بڑی مشکل سے اوپر والے کمرے میں رہنے کو راضی ھوئی ہیں کہہ رہی تھیں ۔۔۔۔۔۔سرونٹ کوارٹر میں رہیں گی ۔۔۔۔۔۔۔۔کیوں ایسا کیسے ھو سکتا ھے ؟اب مبین سکون سے بیٹھ چکے تھے ۔

وہ اصل میں ان کا کوئی نہیں رہا نا ،غریب بھی ہیں ۔۔۔۔بس شاہانہ اپنا،اپنا ھوتا ھے تم نے بہت اچھا کیا یہ تو نیکی کا کام ھے تم زیادہ تر اکیلی ھوتی ھو بلکہ مجھے کافی تسلی رہے گی ہیں کہاں وہ۔۔۔اصل میں وہ پردہ کرتی ہیں ۔۔۔ اچھی بات ھے ۔۔۔ تم کھانا لگواو میں چینج کر کے آتا ھوں ۔۔۔۔۔۔۔اوکے ۔۔۔۔۔شاہانہ کچن میں گئی وہ وہاں نہیں تھیں ۔۔۔۔کھانا لگاتے ،کھاتے وہ بجو کا سوچتی رہی ۔۔۔۔۔۔۔کس حالت میں وہ یہاں پہنچیں تھیں ۔۔۔۔۔ تیز آندھی کے آثار تھے ۔۔۔۔ساری فضا میں سیاہی سی گھل گئی تھی ۔جلدی جلدی کھڑکیاں بند کرتے ھوئے اس کی نگاہ گیٹ پر گئی ۔۔۔۔۔۔۔سفید چادر میں یہ حوریہ بجو ہی تھیں ۔۔خالی ہاتھ ۔۔۔۔ایک ہاتھ میں کوئی کاغذ تھا ۔۔۔۔۔۔اس سے پہلے چوکیدار ان کو بھیج دیتا ۔۔۔۔۔۔۔وہ بھاگ کر گیٹ تک پہنچی ۔۔۔۔بجو۔ وہ ان سے لپٹ گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔وہ بےآواز رو رہی تھیں ۔۔۔۔۔۔گھبرا کر وہ پیچھے ہٹ کر ان کو دیکھنے لگی ۔۔۔۔۔وہ سسکیاں روک رہی تھیں ۔۔۔ کیا ھوا۔۔۔۔۔ یہ دیکھو ۔۔۔۔ان نے روتے روتے اسے کاغذ پکڑایا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔طلاق نامہ ۔۔۔۔ اس کا سر چکرا گیا ۔۔۔۔ ہاں تیس سال بعد یہ ۔۔۔ بس یہ ہی ملا ۔۔۔۔ اس نے انکا سرد ہاتھ تھاما ۔۔۔جلدی سے اندر لائی ۔۔۔۔۔۔اور وہ پھر خاموش ھو گئیں بہت پوچھا ۔۔۔ بس ایک چپ ۔۔۔۔ سب سے پہلے اس نے اوپر کے پورشن میں ان کے لئے کمرہ تیار کیا ۔۔بھاگم بھاگ اپنے دو سادہ سے سوٹ الماری میں لٹکائے ،جاءنماز رکھی ۔۔ تسبیح قرآن پاک ۔۔۔۔۔۔ ان کو سمجھایا ۔۔۔جب مناسب سمجھیں بتا دیجیے گا ۔۔۔۔ میں منیب کو کچھ بھی کہہ کر سمجھا لوں گی آپ یہاں جب تک رہیں بس یہ چپ توڑ دیں ۔۔۔۔۔۔آج تیسرا دن تھا ۔۔منیب لاھور چلے گئے تھے ان کی میٹنگ تھی اور کچھ اور کام بھی نمٹانے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حوریہ کے تو آنسو نہیں رک رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔ساری زندگی کی ریاضت خاک میں مل گئی ۔۔۔۔۔۔مل بھی جاتی تو کیا تھا ۔۔۔۔ اولاد ہی بےوفا نکلی ۔۔۔۔۔جو ان کا مان تھی ۔۔۔۔ باقی بچ کیا گیا تھا ۔۔۔۔۔ انھوں نے کرب سے آنکھیں بند کر لیں۔ منیب کے جانے کے بعد وہ چائے لیکر بجو کے پاس چلی آئی ۔۔ حوریہ نے اس کی آہٹ محسوس کی تو دعا مختصر کر کے جاءنماز لپیٹ دی ۔۔۔۔بجو چائے اس نے تپائی پر چائے کا کپ رکھا ۔۔۔۔۔۔بجو مجھے بتائیں یہ سب کیا ھے ،آپ کے بچے کہاں ہیں ،راحیل بھائی نے ایسا کیوں کیا ؟یہ سوال نہیں ہیں شانی۔ یہ میری حیات کی مکمل داستان ھے ۔۔۔۔۔کہاں سے شروع کروں ۔۔۔۔ انھوں نے آنسو صاف کئے ۔۔۔۔۔۔۔اسے دیکھا ۔۔ہائے ان آنکھوں میں دکھوں کیسی برکھا تھی،کیسا ساون تھا،جو رک ہی نہیں رہا ۔

’’میری اور راحیل کی پسند کی شادی تھی ۔ہاں بس اتنا ہی پتہ ھے کہ وہ اپنے والدین کے کے ساتھ تب تک دھرنا دئیے رہے جب تک آپ کے والدین نہیں مانے ۔ ہاں ان کی سسکی سی سنائی دی ۔۔۔۔وہ بڑے پیارے دن تھے ۔۔۔۔انسان بات بے بات خودبخود مسکرائے جاتا ھے ۔۔پہروں آئینہ دیکھتا ھے ،کسی کے کہے گئے جملے مدہوش کئے رکھتے ہیں ،میں تو ویسے ہی شوخ و البیلی تھی ۔میوزک سننا ،بارش میں بھیگنا ،رات بھر چاند کو تکنا ۔شادی کے بعد کچھ عرصہ سب ٹھیک رہا مگر پھر راحیل بدل گئے ۔صرف بیٹیوں کے طعنے ،گالیاں ۔ہائے کون سی گالی ھے جو میں نے نہ سنی ھو , میں بڑے گھر سے آئی تھی وہ احساس کمتری کا شکار ھوتے جا رہے تھے ۔ میں اکثر ان کی ایک مسکراہٹ دیکھنے کے لئے اماں سے ڈھیروں روپے ان کے ہاتھ میں رکھتی کچھ دن اچھے گزر جاتے ۔خود اچھا کماتے تھے ،نجانے کیوں میرے ابا اماں سےان کو بیر تھا ،محبت ھوا گئی۔ سچ پوچھو تو میں کہوں گی رسوا ھو گئی ۔والدین نے رخصت کرتے ھوئے کہا تھا ۔اب یہ شادی تم کو نبھانی ھے میں نے بھی اس بات کو دوپٹے کے پلو سے باندھ لیا ۔میں ان کے لئے ہار سنگھار کرتی تو وہ نوٹس ہی نہ لیتے ۔میرے کھانے جتنے بھی اچھے ھوتے ان کو بدذائقہ لگتے ۔میں پھر ان کو خوش کرنے کے جتن کرتی ۔ان کو منانے کے لئے ساری ساری رات ان کے پاؤں پکڑ کر معافیاں مانگتی ۔تم سوچو گی میں اتنا کیوں گر گئی ۔شانی محبت ایسی ہی ھوتی ھے اس کو مجھ سے پیار نہیں تھا مگر مجھے تو تھا میں نے ان کو اپنا مانا تھا سچ پوچھو تو وہ میری عادت تھے۔ مگربچے بڑے ھوئے تو ان کے سامنے مجھے بےعزت کرتے ۔میں شرمسار سی پھرتی رہتی بچوں میں سے کوئی بھی کہتا کہ ہم پاپا سے بات کریں ۔میں نے ان کو ہمیشہ یہی کہا ۔ وہ ان کے والد ھیں ۔ان کو عزت دیں اور کسی قسم کا سوال نہ کریں ۔۔۔۔بچیاں بڑی ھو گئیں انھوں نے ۔۔دونوں کی شادی اپنے بھانجوں سے طے کر دی ۔۔۔۔۔۔۔میرے سے مشورہ نہیں کیا ۔۔۔ بس صرف بتایا ۔۔۔۔آج شام ہماری بیٹیوں کا نکاح ھے ۔۔ میرا دل اچھل کر حلق میں آگیا ۔۔۔ارے ایسے کیسے ۔۔۔۔۔بچیوں پر کیا گزرے گی ۔۔۔۔میری آواز صدمے سے پھٹ گئی ۔۔۔۔ہم کو پتہ ھے ماما وہ دراصل پاپا نے منع کیا تھا ان کا خیال تھا آپ یہ رشتے نہیں ھونے دیں گی ۔کنزا میری بیٹی نے جب مجھے کہا تو شانی میرے پاؤں تلے زمین نہ رہی اور سر کے اوپر سے آسماں سرک گیا ۔شوہر کی ہر غلط بات،تحقیر ،توہین اور گالیاں سنتی رہی ،والدین جب تک زندہ تھے ان سے چھپاتی رہی۔بھائی کے پاس گئی تو انھوں نے کہا خود بھگتو پسند تمہاری تھی ۔راحیل جانتے تھے ۔۔۔۔۔۔اب کوئی نہیں جو اس کی حمایت کرے لیکن جب کنزا نے یہ جملہ بولا تو میرا ہاتھ اس پر اٹھ گیا ۔ راحیل نے مجھے جھٹکا دے کر اپنی طرف کیا اور زناٹےدار تھپڑ رسید کیا ۔پہلی بار شانی ۔۔۔۔۔ پہلی بار مجھے لگا آج میں ختم ھو گئی ۔۔۔۔جن بچیوں کے لئے میں نے محل نما گھر سے تین مرلے کے گھر میں گزارا کیا،لبوں پر شکوہ تک نہیں لائی ۔۔۔ میرے اس گھر سے تھوڑا سا آسمان نظر آتا تھا میں اس پر بھی خوش تھی مگر جب شوہر کے ساتھ میری اولاد نے بھی مجھ سے بغاوت کر دی تو میں بالکل ہی نامعتبر ھو گئی ۔

شادیاں ھو گئیں ۔۔۔۔۔تو میں نے خاموشی سے طلاق کے کاغذ اس کے سامنے رکھ دئیے ۔۔۔۔بس ایک لمحہ تھا ۔۔۔۔ وہ ایک لمحہ ۔۔۔۔راحیل کا شکست خوردہ چہرہ ۔۔۔اس کی حیرت ۔

’’ 55سال کا ھو کے طلاق لے رہی ھو ۔۔۔تماشا بنو گی ۔۔۔۔ دنیا آوازے کسے گی ۔‘‘

’’ ہاں لیکن یہ بہت ہی کم ھو گا جتنا تم نے ایک ماں کو ہی تماشا بنا دیا تم جتنا بھی ظلم کرتے میں آخری سانس تک سہتی مگر تم نے ایک ماں کی توہین کی ھے اسے بےعزت کیا ھے ،یہاں کوئی سمجھوتہ نہیں۔میرے لہجے میں سختی اور کڑواہٹ تھی ۔۔۔اس نے دستخط کیے اور میں تمہارے گھر آ گئی ہاں کیسے وین میں بیٹھی ۔۔۔۔ کیسے یہاں تک پہنچی ۔۔۔یہ الگ کہانی ھے ۔‘‘

یہ کہہ کر وہ چپ ھو گئیں ۔۔۔۔۔تو اب کیا کریں گی ۔۔۔۔۔ میں نے کچھ عرصہ پہلے اولڈ ہوم میں درخواست دی تھی جس پر انھوں نے لیٹر بھیجا تھا میں اگلے ماہ کی پہلی تاریخ کو وہاں شفٹ ھو جاوں گی ،ان بےگھروں کی خدمت کروں گی جب بہت بوڑھی ھو جاوں گی تو کوئی اور آ کر خدمت کر دے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔بس شانی میرا کسی کو بتانا نہیں ۔۔۔۔ انھوں نے اپنے آنسو صاف کیے ۔

’’ یاد رکھو ۔۔عورت کبھی نہیں ہارتی جب تک اس کی طاقت،اس کی اولاد ساتھ نہ چھوڑے میری دعائیں ہمیشہ میری اولاد کے ساتھ رہیں گی ۔‘‘

وہ پہلی بار مسکرائیں۔۔۔۔۔۔۔مگر یہ پتہ نہیں کہ میں بیٹیوں کو نہ دیکھ کر کیسے جی پاؤں گی۔۔۔۔ ان کوکسی بات کا دکھ نہیں تھا اولاد کا وچھوڑا ان کا چہرہ زرد کر رہا تھا ۔۔۔ میں ساری عمر گزار کے بھی اس مکان کو گھر نہ کر سکی ۔۔۔۔۔۔۔وہ اب بھی تڑپ تڑپ کر رو رہی تھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور شاہانہ کے آنسو بھی بہنےلگے ۔۔۔۔۔اپنے وقت کی سب سے حسین لڑکی مقدر سے لڑتی رہی ۔۔۔۔ دنیا سے لڑتی رہی بےمہر شوہر کی خدمت کرتی رہی مگر اولاد نے جو بےتوقیری کی ۔۔۔تب ہار گئیں ۔

 

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

افسانہ

بڑے میاں

  • جولائی 14, 2019
  افسانہ : سلمیٰ جیلانی انسانوں کی کہانیاں ہر وقت ہواؤں میں تیرتی پھرتی ہیں یہ ان کی روحوں کی
افسانہ

بھٹی

  • جولائی 20, 2019
  افسانہ نگار: محمدجاویدانور       محمدعلی ماشکی نے رس نکلے گنے کے خشک پھوگ کو لمبی چھڑی کی