افسانہ

ادھوری تصویر : خاور چودھری

اندرونِ شہر زندگی پوری طرح خاموش تھی۔ فصیل بند یہ شہرزمانوں سے آباد اور دو تہذیبوں کا نشان دار تھا۔ مندروں، دھرم شالوں اور دوسہرہ میدانوں کی تمکنت اُسی طرح قائم تھی اورپھرہردوسری گلی میں مسجدوں کے بلند میناروں سے پانچوں وقت ”اللہ اکبر“ کی صدائیں بھی گونجتی تھیں۔ شہر میں کوئی ایک مکان بھی ایک منزلہ نہ تھا۔ ہر گھردو یا تین منزلہ، حتیٰ کہ دکانیں بھی دو منزلہ ہی بنائی گئی تھیں۔ اکثردکانوں کی دوسری منزل گودام کے طور پرکام آتی تھی۔ شہر کے اندر ہی اندر بازار،رہائشی مکانات اوراسکول تھے۔ باہمی محبت برائے نام سہی لیکن آمناسامنا ہونے کی صورت میں ہرکوئی مسکراہٹ کاتبادلہ ضرور کردیتاتھا۔ مشکلوں میں اگرچہ ایک دوسرے کے کام نہ بھی آتے ہوں، پھربھی ایک دوسرے کی مشکلوں اور حالات سے سبھی واقف ہوتے تھے۔ عورتیں گھروں میں ہی اکثر رہتی تھیں لیکن کام والی ماسیاں اِدھر اُدھر کے حالات سے اِدھر اُدھر والوں کو باخبر رکھتی تھیں۔اس گنجان آبادحصے کی سب سے خوب صورت بات یہ تھی، کہ ہر کوئی اپنی زندگی میں مگن تھا۔ پھر ایسی کوئی قابلِ گرفت بات بھی نہ تھی ،جس پرکوئی اُنگلی اُٹھاتا۔مساجدمیں نمازی معقول تعداد میں ہوتے تھے۔ چائے فروشوں کے پاس بھی مخصوص طبقہ موجودرہتا اور پھرسب سے اہم بات یہ کہ مقامی روایات کا گہرااثر بھی اندرونِ شہرکی زندگی میں ہی دکھائی دیتا تھا۔ماضی اورمستقبل کے اتصال پر کھڑا یہ شہر اپنی وضع اور تہذیب کے حوالے سے خاص تھا۔
صفی اسی شہر کے ایک تین منزلہ مکان میں رہتا تھا۔ پختہ اینٹوں اور چونے سے بنا ہوا یہ شاندار بنگلہ نما مکان کاری گروں کے دستِ ہنر کا عمدہ نمونہ تھا۔ چوبی دروازے، جن میں مختلف پرندوں کے نقش کھدے ہوئے، چوبی کھڑکیاں جو گہرے سبز شیشوں کی وجہ سے ایک پُرکیف منظر تخلیق کیے رکھتیں ، دائروی چوبی سیڑھیاں، جو اپنے راہی کو گاہے چکرا بھی دیا کرتی تھیں لیکن اس گھر کے مکین پوری لطف کیشی کے ساتھ ان پرچڑھتے اُترتے۔مکان کے ہر حصے میں چار کمرے، ایک باورچی خانہ اورایک بیت الخلاموجودتھا۔تین اطراف سے خالی یہ گھرہرطرح سے دلکش اور قابلِ توجہ تھا۔ دروازے کے سامنے والی گلی رہائشی مکانات سے منسلک تھی، دا ہنی طرف کی کھڑکیاں بازار میں کھلتی تھیں اوربائیں طرف ایک بڑے میدان میں صدیوں سے ایستادہ پیپل کا درخت تھا۔ ایک طرح سے یہ مکان شہراور دیہات کے دُہرے الطافات میں گھرا ہواتھا۔اسی ماحول میں صفی کابچپن ،لڑکپن اور نوجوانی کا عرصہ گزرا۔
وسطی منزل کاایک کمرہ، جس میں صفی کے کپڑے، جوتے، کتابیں،کرکٹ کے دستانے ، چار بلے،ڈھیر وکٹیں اور لکڑی کی درجن بھر گیندیں ایک خاص ترتیب سے سجی پڑی تھیں۔درمیان میں کینوس اسٹینڈ ایستادہ تھا۔ جس کے اطراف میں چھوٹی چھوٹی تپائیوں پر مختلف رنگوں کے بند ڈبے اور کئی بُرش بھی ایک دلکش بے ترتیبی سے بکھرے پڑے تھے۔کینوس پرایک ادھوری تصویر تھی جو سفید دوپٹے کے اندرسے جھانکتی معلوم ہوتی تھی۔ اگرچہ یہ منظر بیس سال پہلے قید کرلیاگیاتھا اور یہ ادھوری تصویراُسی وقت سے ادھوری چلی آرہی تھی، جب بنانے والے نے اسے اس حال میں چھوڑدیا تھا لیکن نئے دیکھنے والوں کویوں گمان ہوتا، جیسے ابھی ابھی کوئی کینوس پر کام کرکے گیاہے اور واپس پلٹتے ہی اسے مکمل کردے گا۔اورجاتے ہوئے احتیاطاً اس پر سفید دوپٹا ڈال گیا ہے۔
سُرمئی بال،گہری بھنویں ، خوب صورت آنکھیں اور ان کے درمیان تراشیدہ ناک۔ یہ نامکمل منظر پچھلے بیس سال سے اسی حالت میں تھا۔مصور نے پلٹنا تھا، ہونٹ بنانے تھے، چہرے کو مکمل کرنا تھا، جسم تشکیل دیناتھا اور پھراس شہکارکو دیکھ کر لطف کیشی کا سامان ہونا تھا۔ اس کمرے میں وقت ٹھہرا ہوا، منتظر اور منقش مگر باہرکی دُنیا بہت آگے نکل چکی تھی۔ خود صفی کئی منزلیں سرکرچکا تھا۔
وہ انھی گلیوں میں سے گزرکربیرونِ شہر کالج جایاکرتی تھی۔ پہلی بارصفی نے اسی کمرے کی کھڑکی میں سے جھانکتے ہوئے اُسے دیکھاتھا۔بھورے رنگ کی چادراوڑھے ہوئے پورے نقاب میں سے صرف اُس کی آنکھیں دکھائی دیتی تھیں، جن پرہمیشہ گھنے اَبرووں کا سایہ رہتا تھا۔ ناک نقشہ تواُسے کبھی دکھائی ہی نہ دیاتھا اورشاید یہ تصویر بھی اسی وجہ سے ادھوری رہ گئی تھی، کہ وہی چہرہ اس میں جچتا بھی تھا۔کامل دیدار کے انتظار میں تصویرکی مکمل تشکیل کا عمل باقی تھا۔
یورپ کی تیزترین زندگی میں اُسے موقع ہی نہ ملا کہ مڑکردیکھتا اوراُسے تویہ خیال بھی کم ہی آیا کہ وہ اپنے کینوس پر ایک ادھوری تصویرچھوڑ آیا ہے، جسے مکمل کرنا ضروری ہے۔
اس کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں اور گئیں۔ بعض کے ساتھ تواس کا جسمانی تعلق بھی قائم ہوا اوربچے بھی پیدا ہوئے ،جوولدیت کے خانے میں اُس کا نام لکھواتے اور فخر محسوس کرتے تھے؛ کیوں کہ وہ ایک کامیاب انسان کے ہاں پیدا ہوئے تھے۔
یہ بہت اذیت ناک دنوں کی بات ہے ، جب اُسے اپنی تیسری بیوی سے بھی الگ ہونا پڑا تھا۔ دوبچوں کی ماں کسی طرح بھی یہ برداشت نہیں کرپاتی تھی ،کہ اُس کا شوہر اپنے دفتر میں کئی کئی لڑکیاں رکھے ۔وہ اس بات کو بھول رہی تھی، کہ شادی سے پہلے وہ اسی دفتر کی ایک ادنیٰ کارکن تھی۔اب مگر وہ عدالت کے ذریعے سے علاحدگی چاہتی تھی۔ بچوں کو لے گئی اور مقدمہ چل رہاتھا۔ انھی دنوں میں وبا پھوٹ پڑی۔ ہرطرف سے روح فرساخبریں سننے کو ملتی تھیں۔ کاروبارِ زندگی معطل ہونے جارہاتھا۔ کئی ملکوں نے اپنی سرحدیں بند کردی تھیں اور کئی ممالک فیصلہ کرنے والے تھے۔ ایسے ہی حالات میں صفی پلٹ آیا۔گھر میں رہاکون تھا؟ بہنیں اپنی زندگیوں میں مگن، بھائی تھا نہیں۔ باپ بھی دس سال پہلے رخصت ہوگیاتھا۔ ایک بوڑھی ماں تھی، جوپورے بنگلے کو ایک نوکرانی کی مدد سے صاف رکھتی تھی۔صفی کے کمرے کا خیال کرتی؛اُس کی چیزوں کو چومتی اور کینوس پر ادھوری تصویر کی تکمیل کا خواب دیکھتی رہتی تھی۔
اندرونِ شہرکاوہی گھر اوراس گھرکاخاص کمرہ ،جس میں ایک کینوس اسٹینڈ ایستادہ ہے۔ کینوس پر سفید دوپٹے میں سے جھانکتی ہوئی ایک ادھوری تصویر، جس کی تکمیل کا مرحلہ باقی ہے۔ کمرے کامکین بیس سال بعداُس حالت میں پلٹا ہے، جب ڈاکٹروں کی تشخیص کے مطابق وہ کورونا وائرس سے متاثر ہے۔ اُسے آئسولیشن میں رہنا ہے۔مکمل تنہائی کی حالت میں۔ایسی تنہائی جہاں اُس کے پاس کوئی انسان نہ ہو۔ کیوں کہ اُس کی وجہ سے دوسرے انسان متاثر ہوسکتے ہیں۔
تنہائی ____ ماضی کے دریچوں سے جھانکتی یادیں ____ نقاب میں چھپا ہوا چہرہ ____ کینوس پر ادھوری تصویر ____ اوربیماری سے لڑتا ہوا مریض ۔ اُس نے کوشش کی کہ مرنے سے پہلے اس تصویر کو مکمل کردے۔کم ازکم اُنھی میں سے کوئی چہرہ یہاں پینٹ کردے، جن کے ساتھ وہ برسوں جیا تھا مگر وہاں بھی تو تمام چہروں پر نقاب چڑھا ہوا تھا۔
O

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

افسانہ

بڑے میاں

  • جولائی 14, 2019
  افسانہ : سلمیٰ جیلانی انسانوں کی کہانیاں ہر وقت ہواؤں میں تیرتی پھرتی ہیں یہ ان کی روحوں کی
افسانہ

بھٹی

  • جولائی 20, 2019
  افسانہ نگار: محمدجاویدانور       محمدعلی ماشکی نے رس نکلے گنے کے خشک پھوگ کو لمبی چھڑی کی