آج پھر اس کی دیہاڑی نہ لگی ۔ شام کو جیب میں پھر چند ٹکوں کا قحط ڈالے اپنے گھر لمبی بدنصیبی کی طرح واپس آگیا ۔ آدھ درجن بچوں میں اصغر سب سے چھوٹا تھا ۔ وہ ہر روز چڑھتے سورج کے ساتھ اصغر سے چابی والی کار کا وعدہ کر کے نکلتا اور پھر شام میں اصغر کے ننھے دل کو اگلی صبح کے وعدوں میں غروب کر دیتا ۔ اس کی بیوی چوہدری کی حویلی کے تندرو میں اپنے بچوں کی ہر آسائش خواہش جھونک کر دو چار روٹیاں بچا لاتی ۔ اصغر اور دوسرے بہن بھائی اصغر کی چابی والی "سلیمانی” کار سے غائبانہ کھیل ادا کرتے سارا دن گزار دیتے ۔ وہ شام کو گھر لوٹا اور اصغر کے توتلے سوالوں کو سینے میں گھونپ کر بستر پر بھوک سے لڑتا لڑتا سو گیا ۔ بچے اس کے آس پاس کھیلتے رہے ۔ بچوں کے کھیلنے کی عزاداری میں شہنائی کی تان جیسا نوحہ کان کے پردوں کو چھلنی کرتا ہوا دل میں پیوست ہوا تو آنکھ کھل گئی ۔ ننھا اصغر سوئے ہوئے باپ کے پیروں کے دونوں انگوٹھوں کو ایک ڈوری سے باندھ کر اپنا احتجاجی کھیل کھیلتا ہوا قہقہے لگارہا تھا ۔