ہمارے شہر،ہمارے گاؤں ہمارے سمندراور پہاڑ سب کچھ گندگی کا ڈھیر بنتے جا رہے ہیں – سیورج سسٹم ہو یا کوڑا کرکٹ ہر جگہ ایک انتہائی اذیت ناک منظر پیش کر رہا ہے -اگر صرف اسی مسئلے کا تجزیہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ ہم نہ تودینی تعلیمات پر عمل کرنے کو تیار ہیں اور نہ ہی شہری زندگی کی تہذیب کو فروغ دینے کے لیے – ریاستی ادارے اس صورتِ حال کا مقابلہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے – کہیں فنڈزکی کمی کا مسئلہ ہے کہیں منصوبہ بندی کے فقدان کا اور کہیں نا اہلی و بد نیتی کا –
جب کسی معاشرے میں گند ڈالنے والوں کی اکثریت ہو تو معاملات بہت بگڑ جاتے ہیں – ہر طرف تعفن ، بیماریاں اور گلیوں بازاروں میں سیورج کے پانی کا راج – آپ کسی بھی شہر میں چلے جائیں کوڑے کے پہاڑ اور سیورج کا پانی آپ کا استقبال کرے گا – بہت کم علاقے ایسے ہیں جہاں کچھ بہتری نظر آتی ہے – یہ صورتِ حال کئی سوال اٹھاتی ہے یعنی ہمارا ناقص نظام تعلیم و تربیت ،قانون شکنی،بے پناہ آبادی اورکم وسائل – کیا ریاست یہ سارا بوجھ اٹھا سکتی ہے اورکیا یہ قوم خود کو مہذب بنانے کے لیے آمادہ ہے اور کیا ہماری اشرافیہ ان مسائل کو مسائل سمجھتی ہے – پیش نظر جو کچھ ہے وہ ان سوالات کے جوابات کی صورت ہمارا منہ چڑا رہا ہے – میڈیا ایک بہت توانا کردار ادا کر سکتا ہے مگر اس کی سمت کیسے درست کی جائے – کیا ایسے میں ایک قومی سطح کا مکالمہ نہیں ہونا چاہیے ؟
میری ناقص رائے یہ ہے کہ عوام اور حکومت کو مل کران حالات کا مقابلہ کرنا چاہیے – اور میڈیا کو لوگوں میں بہتر زندگی گزارنے کا تصور عام کرنا چاہیے – سماجی بھلائی کے کاموں کی کوریج ہونی چاہیے – اچھے لوگوں کو میڈیا پہ پیش کیا جانا چاہیے تا کہ اچھائی کی ترغیب ملے –
انسان ترغیب اور ڈر سے بدلتے ہیں – ترغیب بہت توانا ٹول ہے – اور قانون کی حکمرانی بے راہ روی کا راستہ روکنے کا بہترین ذریعہ ہے -شہروں کی صفائی کے لیے میری ایک تجویز ہے کہ شہر کے ہر بازار کے تاجراگر معمولی سے رقم ادا کر کے اپنے بازار کے لیے چند خاک روب بھرتی کر لیں تو اس کے دو فائدے ہوں گے ایک کچھ لوگوں کو روز گار مل جائے گا دوسرا بازار صاف نظر آئے گا – خاکروب چونکہ تاجروں سے تنخواہ لیں گے اس لیے وہ تاجروں کو جواب دہ ہوں گے -خاکروب ایک جگہ کوڑا اکٹھا کر دیں گے جہاں سے بلدیہ کی گاڑی اسے آسانی سے اٹھا لے گی -یوں بلدیہ پہ افرادی قوت کا بوجھ بھی کم ہو جائے گا -اور شہر بھی ہر وقت صاف رہے گا – اس کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ شہر صاف ہو گا تو شہری بھی گند ڈالنے سے پرہز کریں گے -یہ آسان ترین حل ہے جسے ہر شہر کی انتظامیہ تاجروں کے تعاون سے مل کر روبہ عمل کر سکتی ہے – جدید دنیا میں بہت سے کام اسی طور مقامی سطح پر کیے جا رہے ہیں –
اب رہی بات سیوریج سسٹم کی تو اس میں سول انجئیرز اور قانان نافذ کرنے والے افراد نہایت آسانی سے یہ مسئلہ حل کر سکتے ہیں -سیورج سسٹم کی ڈیزائینگ اور پانی کے فلو کو یقینی بنانے کے اقدامات کیے جا سکتے ہیں – اگر متعلقہ محکمے ہر نئے بننے والے گھر پہ پابندی لگا دیں کہ وہ اس وقت تک سیورج لائن استعمال نہیں کر سکے گا جب تک کہ وہ اپنے گھر سے نکلنے والے پانی کو پہلے کسی حوض میں اکٹھا کرکے اور پھر نتھرا ہوا پانی سیورج لائن میں ڈالنے کا بندوبست نہ کرے — اس کی خلاف ورزی کرنے والے سے سختی سے نمٹا جائے اور بھاری جرمانہ کیا جائے – کسی بھی جگہ کھلی نالی کا پانی سیورج لائن میں داخل نہ ہو –
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ گٹروں کے ڈھکن انتہائی مضبوط بنائے جائیں اور سڑک کے مطابق ان کو بنائے جائے – آج کے دور ڈھکنوں کا مضبوط نہ ہونا صرف غفلت اور کرپشن کے باعث ہے – اس کی روک تھام زیادہ مشکل نہیں – استعمال ہونے والے میٹیریل کا تعین کر دیا جائے – اور بناتے وقت سخت نگرانی کی جائے -کنکریٹ کا ڈھکن کبھی بھی نہیں ٹوٹتا اگر اس کواچھے طریقے سے بنایا جائے – اور اس کے سانچے پہ توجہ دی جائے تو-
بہت سے شہروں سے ملحقہ ٹاؤنز میں اب وہاں کے رہائشیوں کی نگرانی میں کنکریٹ کی سڑکیں بن رہی ہیں جو پانی میں خراب نہیں ہوتیں – اس سوچ کو عام کرنے کی ضرورت ہے – چھوٹے بڑے شہروں میں ٹاؤن کمیٹیا بنا کر بہت سے مسائل آسانی سے حل ہو سکتے ہیں – بہت سے لوگوں کو جن میں خاک روب،چوکیدار اور الیکٹریشن وغیرہ کو روزگار مل سکتا ہے – رہائشیوں پر انتہائی کم مالی بوجھ ڈال کر ٹاؤن کمیٹی سارے کام کر سکتی ہے – جب تک ہم مقامی سطح کی کمیٹیاں بنا کر آگے نہیں بڑھیں گے اور حکومتی اداروں کی طرف دیکھتے رہیں گے – ہم ان مسائل کی دلدل سے نہیں نکل سکیں گے – ہم بڑی آسانی سے اپنے ٹاؤن میں پھول اگا سکتے ہیں صفائی کو یقینی بنا سکتے ہیں سیکورٹی کے معاملات سنبھال سکتے ہیں -اور یوں ایک باہمی یگانگت کو فروغ دے کر نئی نسل تک اجتماعیت کا پیغام پہنچا سکتے ہیں – آئیے بسم اللہ کریں
یوسف خالد
Muhammad Tahir Shah
نومبر 22, 2019بہت خوب سر….. اچھی تجاویز 🌷💕💞🌺💐👍💯