تنقید

ڈاکٹر وزیرآغا … شخصیت اور فن


از: ذوالفقاراحسن
دنیائے ادب کے معروف نقاد، انشائیہ نگار، محقق، اور شاعر ڈاکٹر وزیر آغا ایک ہمہ جہت شخصیت تھے۔ انہوں نے اردو تنقید کو کئی قابل قدر تصانیف سے مالامال کیا۔ نہ صرف انشائیہ نگاری کی افہام و تفہیم میں ایک اہم کردار ادا کیا بلکہ خودبھی بہت اچھے اردو انشائیے لکھ کر اس صنف کی شناخت قائم کی، لیکن ادب کے میدان میں ان کی پہلی پہچان بطور شاعرکی ہے۔ جس کو انہوں نے نہ صرف تادم مرگ قائم رکھا بلکہ اپنی مسلسل تخلیقات سے اپنے تجربوں کے رموز و اسرار کے نادیدہ جہانوں کا اس خوبصورتی سے انکشاف کرایا ہے کہ ہم اس حیرت کدہ میں گم ہو جاتے ہیں۔ ڈاکٹر وزیر آغا اردو کے پہلے نقاد تھے جنھیں غیر ملکی ناقدین نے نہ صرف قبول کیا بلکہ ان کے نظریات سے استفادہ بھی کیا۔
وزیر آغا 1922ء میں سرگودھا کے ایک دور افتادہ گاؤں وزیر کوٹ 56جنوبی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم دیہاتی مدرسوں میں حاصل کی۔ ایم اے (معاشیات) گورنمنٹ کالج لاہور سے کیا۔ 1956ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ڈاکٹر یٹ (بعنوان ”اردو ادب میں طنز و مزاح“) کی ڈگری حاصل کی کچھ عرصہ کے لیے مولانا صلاح الدین احمد کے معروف ادبی جریدے ”ادبی دنیا“ سے بطور شریک مدیر منسلک رہے۔”ادبی دنیا“ کو ایک نئے زاویے سے روشناس کرایا۔ مولانا صلاح الدین احمد نے وزیر آغا کے ہاں چھپی ہوئی تخلیقی صلاحیتوں کو دیکھ لیا تھا انھوں نے وزیر آغا کی ہر موقع پر رہنمائی کی ان کی تخلیقات کو ”ادبی دنیا“ کی زینت بنایا مولانا صلاح الدین احمد کے انتقال کے بعد ڈاکٹر وزیر آغا نے 1966 میں اپنا عہد ساز ادبی جریدہ ”اوراق“ نکالا۔ جس کا 35 سالہ نمبر 2000 میں شائع ہوا۔ اوراق پر محمود اسیر نے ایم فل کا ایک مربوط مقالہ بھی تحریر کیا۔35سالہ نمبر میں محمود اسیر نے ایک مربوط اعشاریہ بھی دیا ہے جس کی مدد سے 35سال کے دوران چھپنے والے مضامین کی فہرست اداریوں کی فہرست اور دیگر معلومات مل سکتی ہیں۔
وزیر آغا نے کل طبع زاد کتابوں کی تعداد 60 کے قریب ہے۔ڈاکٹر وزیر آغا کے فن پر جامعات میں خاصا کام ہو اہے۔ ایم اے‘ ایم فل‘ اور پی ایچ ڈی کے متعدد مقالات لکھے جا چکے ہیں۔ علاوہ ازیں وزیر آغا کے فن اور شخصیت پر تاحال 12 کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ وزیر آغا کی نظموں کے تراجم انگریزی‘ جاپانی‘ ہسپانوی‘ اطالوی‘ جرمن‘ یوگو سلاوی‘ یونانی‘ سویڈش‘ ہندی‘ بنگالی‘ پنجابی اور سرائیکی میں ہو چکے ہیں۔ ان کی نظم ”اک کتھا انوکھی“ کا ترجمہ یونانی زبان میں بصورت کتاب شائع ہو ا ہے۔ ان کی یہ نظم سویڈش زبان میں بھی شائع ہوئی ہے۔
ڈاکٹر وزیر آغا نئے لکھنے والوں کے ساتھ بہت شفقت فرماتے۔ ہمیشہ ان کی رہنمائی کرتے اور ان کی تخلیقات کو ”اوراق“ کے ذریعے پوری اردو دنیا میں متعارف کرواتے۔ ڈاکٹر رشید امجد بتا رہے تھے کہ ہم نے جب لکھنا شروع کیا ایک آدھ افسانہ اوراق میں چھپا ہوگا ہم راولپنڈی سے بذریعہ ٹرین ان سے ملنے سرگودھا آرہے تھے۔ دوستوں میں منشایاد بھی شامل تھے جب ہم لوگ سرگودھا ریلوے اسٹیشن پر اترے تو ہمیں لینے کے لیے خود وزیر آغا ریلوے اسٹیشن پر موجود تھے۔ ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ اتنا بڑا آدمی ہم جیسے نئے لکھنے والوں کے لیے خود ریلوے اسٹیشن پر آئے گا مگر یہ ان کا بڑا پن تھا۔اور نئے لکھنے والوں کے لیے ایک محبت تھی۔
ڈاکٹر وزیر آغا کی شام دوستاں آباد ہمیشہ آباد رہی ہے۔ سرگودھا میں قیام کے دوران یہ محفل روزانہ تین چار بجے جمنا شروع ہو جاتی اور پھر رات گئے تک جاری رہتی۔ وزیر آغا کا حس مزاح بلا کا تھا۔ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے ایسا مزاح پیدا کرتے کہ پوری محفل کشت زعفران بن جاتی۔ ڈاکٹر صاحب کا ایک ڈرائیور باؤ ہوا کرتا تھا۔ باؤ ڈرائیور بھی تھا، آغا جی کا پرسنل سیکرٹری بھی اور اکاؤنٹنٹ بھی۔ باؤ نے تقریباً 20 سال تک یہ ملازمت کی اس کے بعد اس کا ذہنی توازن بگڑ گیا۔ تو ڈاکٹر صاحب نے اس کا کافی علاج وغیرہ بھی کروایا مگر وہ ٹھیک نہ ہو سکا۔ راقم نے ایسے ہی ایک دن ڈاکٹر صاحب سے پوچھا باؤ کیسے پاگل ہوگیا تھا۔ ڈاکٹر نے بے ساختہ کہا ”وہ بیس سال میرے ساتھ رہا ہے پاگل بھی نہ ہوتا“۔؟
ڈاکٹر وزیر آغا کی کتاب ”دستک اس دروازے پر“ چھپی تو اس پر بے شمار تبصرے بھی آئے۔ ایک صاحب نے کراچی سے فون کیا آغا جی میں نے تین مرتبہ آپ کی کتاب ”دستک اس دروازے پر“ پڑھی ہے کوئی سمجھ نہیں آئی۔ڈاکٹر وزیر آغا نے جواب دیا میں نے آٹھ مرتبہ خود پڑھی ہے مجھے خود سمجھ نہیں آئی۔“
راقم سمیت نئے لکھنے والے جن میں عابد خورشید، عابد سیال، محمد عامر رانا، فیصل سلہری، صفدر رضا صفی ان کی محفلوں میں شریک ہوتے اور ان کے اقوال کے لاکھوں گوہر نایاب لے کر اٹھتے۔ عابد سیال، عابد خورشید اور صفدر رضاصفی مجھ سے پہلے اوراق میں چھپنا شروع ہو چکے تھے۔ ایک روز آغا جی نے کہا ذوالفقارؔ یہ جو غزل تم نے سنائی ہے کہیں چھپی تو نہیں میں نے کہا نہیں تو انھوں نے کہا یہ اوراق کے لیے دے دو۔ یقین جانئے مجھے پوری رات خوشی سے نیند نہیں آرہی تھی کہ اوراق جیسے عہد ساز ادبی جریدے کے لیے آغاجی نے خود غزل مانگی ہے۔راقم کے لیے یہ کسی اعزاز سے کم نہ تھا۔ پھر اس کے بعد جب اوراق چھپا راقم کی غزل اور دیگر تخلیقات ضرور شامل ہوتی رہیں۔ وہ نئے لکھنے والوں کی تربیت کرتے تھے۔ ایسی تربیت کہ تربیت لینے والوں کو بھی پتہ نہیں چلتا تھا کہ ان کی اصلاح ہو رہی ہے۔ عابد خورشید اور راقم سے بہت محبت کرتے ان کی محبت کا ایک انداز یہ بھی تھا کہ سرگودھا میں ان کے گھر ایک وسیع لائبریری موجود تھی جو انھوں نے عابدخورشید اور راقم الحروف (ذوالفقاراحسن) عنایت کر دی تھی۔
ڈاکٹر وزیر آغا نے جدید اردو غزل کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ غزل کا دامن وسیع سے وسیع تر ہوگیا ہے۔ ایسی تراکیب‘ استعارے اپنی ڈکشن میں لے کر آئے ہیں جوا س سے قبل کبھی اردو غزل میں دکھائی نہیں دیتے تھے مثلا ً کشت فلک ۔ مشکیزہ ء ابر۔ ستاروں کے گُرز۔ دوپہر کی قاشیں ۔ کاسہء بدن۔ عارضِ شام۔ وغیرہ ایسی سینکڑوں تراکیب ان کی غزلوں میں موجود ہیں۔
ڈاکٹر وزیر آغا اپنی کشتِ غزل میں جدت کے بیج بوتے ہیں۔ ان کی غزلیں اسی لیے مختلف ہیں ان کا ذائقہ الگ ہے ا ن کی غزلیں پڑھنے والے کو ایک نقصان بھی ہوتا ہے کہ اسے پھر کسی اور شاعر کی غزلیں مشکل ہی سے پسند آتی ہیں۔ اور یہ ہے بھی حقیقت کہ وزیر آغا اور ”اوراق“ کو پڑھنے والوں کا منٹل لیول اتنا بلند ہو چکا ہوتا ہے کہ اس معیار کی کوئی چیز ملے تو پسند آئے۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے اردو‘ انگریزی کے علاوہ پنجابی زبان میں بھی شاعری کی ہے۔ پنجابی میں ان کے دو شعری مجموعے ”چھج تاریاں دا“ اور ”واجاں باہجھ وچھوڑے‘ شامل ہیں۔ ڈاکٹر وزیر آغا کو قومی صوبائی سطح کے کئی ایوارڈز بھی مل چکے ہیں۔
1994ء میں ڈاکٹر وزیر آغا سویڈش رائٹرز یونین کی دعوت پر جنوبی ایشیا کے نمائندہ کی حیثیت میں سٹاک ہوم گئے اور وہاں سویڈش رائٹرز یونین کے خصوصی اجلاس میں اپنا مقالہ پڑھا۔اس کے بعد سویڈش رائٹرز یونین اور نوبیل اکادمی کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا۔ انہیں نوبیل پر ائز کے لیے دو دفعہ نامز د کیا جا چکا ہے۔
1965ء میں ڈاکٹر وزیر آغا کی سب سے اہم تصنیف ”اردو شاعر ی کا مزاج ”شائع ہوئی تو اس کے ساتھ ہی مباحث کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ اس کتاب کی اشاعت نے اردو تنقید کے دھارے کو ایک نئی سمت میں موڑ دیا۔ کتاب کی تعریف اور مخالفت میں بے شمار مضامین لکھے گئے۔ مذاکرے ہوئے‘ تبصرے ہوئے مگراس کی اہمیت سے انکار نہ کیا جا سکا۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک ا س کتاب کے نو ایڈیشن آچکے ہیں۔ ”اردو شاعری کا مزاج“ وزیر آغا کی ایک نہایت فکر انگیز تصنیف ہے جس نے عالی مرتبہ مفکرین اور ناقدین کے لیے سوچ کے نئے دروازے کھول دئیے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:
اتنا نہ پاس آ کہ تجھے ڈھونڈتے پھریں
اتنا نہ دور جا کہ ہمہ وقت پاس ہو
کوزوں کے ساتھ ہم بھی تھے بکھرے پڑے وہاں
اس شہر بے مثال کے آثار ہم بھی تھے
اک بار ہم نے پار کیا چپ کا ریگزار
پھر عمر بھر اٹے رہے لفظوں کی دھول میں
نکل پڑے ہو سفر کو تو شاہراہ کے ساتھ
کسی کے یاد کے کتبے جگہ جگہ رکھنا
ڈاکٹر وزیر آغا کی غزل کی دُنیا ایک عجیب طلسماتی دنیا ہے اس کے اندر داخل ہوتے ہی ایسا محسوس ہوتا کہ ہم کسی اور دنیا میں آگئے ہیں۔ مگر شرط صرف ان کی غزلوں کا مطالعہ ہے۔ کیونکہ جس نے بھی ان کو پڑھنا ہے پھر اُسے عمر بھر انہیں کے سحر میں رہنا پڑے گا یا پھر یوں کہ کہہ لیں کہ اک عمر بھر کا رت جگا اس کا مقدر بن جائے گا۔
دھنک دیوار ہے رستے میں حائل
وگرنہ جست بھر کا فاصلہ ہے
ڈاکٹر وزیر آغا کی مشہور تصنیفات میں ”اردو ادب میں طنز و مزاح“،”اردو شاعری کا مزاج“ ”مسرت کی تلاش“،”چہک اٹھی لفظوں کی چھاگل“، ”گھاس میں تتلیاں“، ”دستک اس دروازے پر“،”تین سفر“ ”شام کی منڈیر سے“،”شام دوستاں آباد“،”اردو انشائیے کے خدو خال“، ”چنا ہم اک پہاڑی راستہ“،”روڈ رولر سے پگڈنڈی تک“، ”معنی اور تناظر“، ”تنقید ی مضامین“،”ہم آنکھیں ہیں“، ”مجید امجد کی داستان محبت“،”دیکھ دھنک پھیل گئی“، ”عجب اک مسکراہٹ“، ”تنقید او راحتساب“،”تخلیقی عمل“،”یہ آواز کیا ہے“،”آدھی صدی کے بعد“ ’، ”چٹکی بھر روشنی“،”نظم جدید کی کروٹیں“،”تصورات عشق و خرد اقبال کی نظر میں‘‘ ”ساختیات او رسائنس“، ”مگر ہم عمر بھر پیدل چلے“ ”غالب کا ذوق تماشا“، ”نئے مقالات“ ” ”تصورات عشق و خرد اقبال کی نظر میں“۔ ”پگڈنڈی“شامل ہیں۔
7 ستمبر 2010 ء بروز منگل رات ساڑھے گیارہ بجے لاہور میں انتقال کر گئے۔ ان کی نماز جنازہ ان کے آبائی گاؤں 56 جنوبی وزیر کوٹ میں ادا کی گئی اور انہیں ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں سپر د خاک کر دیا گیا۔ اس موقع پر ملک کے ممتاز شعرااور ادباء موجود تھے۔ جن میں خاص طور پرسربراہ مقتدرہ قومی زبان افتخار عارف،ڈاکٹر رشید امجد، ڈاکٹر تحسین فراقی، شاہد شیدائی، ڈاکٹر ناصر عباس نیئر، جلیل عالی، علی محمد فرشی، شناور اسحاق، منشایاد، یوسف خالد، ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم، ممتاز عارف، ارشد ملک، شاکر کنڈان، عابد خورشید، شفیق آصف، خالد اقبال، سید مرتضی حسن، اقتدار جاوید اور طارق کلیم موجود تھے۔ میانوالی سے ماہنامہ ”سوجھلا“کی مدیرہ ڈاکٹر عالیہ قیصر نے فون کر کے راقم سے اظہار تعزیت کیا۔ اس نے کہا کہ ہم سرگودھا میں زیادہ لوگوں کو نہیں جانتے۔ وزیر آغا کا انتقال ایک بہت بڑا ادبی نقصان ہوا ہے۔ ان کی وفات سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ شاید کبھی پر نہ ہو سکے۔ ا اللہ تعالیٰ انہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔یہ ایک ادبی ذمہ داری اور انسان دوستی کی عمدہ مثال ہے۔ محبتوں کے دعوے کرنے والے لاکھوں ادباء و شعراء کو وہاں موجود ہونا چاہیے تھا۔ لاہور سے صرف شاہد شیدائی، اقتدار جاوید اور شناور اسحاق ہی تشریف لائے۔افتخار عارف نے اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود تشریف لا کر بڑے پن کا مظاہرہ کیا ہے۔افتخار عارف نے تشریف لا کر اہل سرگودھا کے دل جیت لیے ہیں۔12ستمبر 2010ء کو ان کا ختم شریف تھا جس میں ادباء و شعراء میں سے یوسف خالد، ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم، میاں ایم ڈی شاد، اظہر امین ایڈووکیٹ، عامر عبداللہ، مرزا شبیر بھیروی، غلام مصطفی اسد، شاہد شیدائی، اخلاق عاطف،شاکر کنڈان، طارق حبیب، عابد خورشید، شفیق آصف شامل ہوئے۔ ڈاکٹر وزیر آغا ایک گھنا درخت تھے جس کی گھنی چھاؤں میں بیٹھنے والے راحت محسوس کرتے تھے اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

تنقید

شکیب جلالی

  • جولائی 15, 2019
از يوسف خالد شکیب جلالی—————-ذہنی افلاس اور تخلیقی و فکری انحطاط کی زد پر آیا ہوا معاشرہ لا تعداد معاشرتی
تنقید

کچھ شاعری کے بارے میں

  • جولائی 15, 2019
      از نويد صادق مولانا شبلی نعمانی شعرالعجم میں لکھتے ہیں: ’’ سائنس اور مشاہدات کی ممارست میں