خالداحمد
’’ یار ! یہ کیسی قوم ہے ؟ یہ کیا لوگ ہیں ؟
یہ کب جینا سیکھیں گے !
’’ میرا منہ کیا دیکھ رہے ہو ؟ بو لو ناں!
’’ بو لو! تم ہی کہو! کورے لٹھے کی
کوری چادر کی خواہش کیا کوئی خواہش ہے ؟
’’ اِک اچھی غُسّالہ کی فرمائش،
اس دنیا کے کِن ارمانوں میں سے
اِک ارمان گنی جائے گی؟ بولو ناں!
’’ اچھا ! تم ہی بتائو !
مسجد کا پاکیزہ تختہ اور پلنگ
تمنائوں کے کس زمرے میں آتے ہیں
’’ بولو! اب لاہور میں تیس تہجد کیش نمازی ،کون تلاش کرے؟
’’ تم ہی کہو ! تم تو لاہور کے روڑے ہو !
’’ یار یہ کیسا ملک ہے ؟
لوگ یہاں عزت سے مرنے کی خواہش میں
جیتے جی مر جاتے ہیں!
’’ یار ! یہ کیسے لوگ ہیں ؟ یہ کب جینا سیکھیں گے؟
’’ خالد یار! مرا اِحساس ہے ،
غربت کی عادی بوڑھی مائوں کا
اکلوتا بیٹا ہونا بھی کوئی اچھی بات نہیں!
’’ رات وہ چندھیائی چندھیائی آنکھوں سے مجھ کو دیکھ رہی تھی
اور مجھے پہچان نہ پا کر
بوڑھی بوڑھی،ٹھنڈی ٹھنڈی پوروں سے
میرا چہرا کچھ ایسے ٹٹول رہی تھی گویا
اُس کی بوڑھی آنکھیں ، اُس کی ٹھنڈی پوریں تھیں
’’ خالد ! میں نے جھوٹے منہ ،
اُس کی ہر بات پہ حرف بہ حرف عمل کرنے کا
وعدہ کر تو لیا تھا اور اُس نے بھی
میری بات کو سچ گردان لیا تھا
لیکن یار، تمھی سوچو،
کیا یہ سب کچھ ممکن ہے؟ بولو! بولو ناں!
’’ خالد ! کیا یہ سب کچھ اِس دنیا میں ممکن ہے ؟
’’ ا ُس نے آخری وقت ،تمھارا نام لیا تھا
کہتی تھی: تم اِس جھنجھٹ میں مت پڑنا!
بس خالد کو بلوا لینا ، وہ ان کاموں کا ماہر ہے
’’ یار تم ا ِس دنیا میں لاوارث قبروں کے وارث کیوں بن بیٹھے ہو ؟
’’ اِس دنیا کا وارث وہ ہے ، اُس کے کام میں دخل نہ دو
’’ تم اپنی دن بھر کی محنت کی اجرت، پھولوں پر ضائع کر دیتے ہو!
اِس پہ تمھارے بچوں کا حق ہے ،
لیکن میری ماں کہتی تھی:خالد، اِک اچھی ماں کا
اِک اچھّا بیٹا ہے!
’’ میری ماں سچ کہتی تھی ؟‘‘
’’ وہ سّچی تھیں ! وہ سچ کہتی تھیں! ‘‘
’’ سچ ؟ ‘‘
’’ہاں ! ‘‘
’’ تو بیٹھے کیوں ہو ؟
اُٹھو، کورے لٹھے کی کوری چادر
مسجد کا تختہ ا ور پلنگ
اچھّی سی غُسّالہ
تیس تہجّد باز نمازی
اکلوتے بیٹے کا کندھا،
خیر وہ میں ہوں، میں تو ہوں!
’’ بس! تم قبر کا بھی کہتے آنا
’’ ٹھہرو ! وقت بھی پوچھتے آنا، بس جائو!
’’ دیکھو ! نہلائو ، کفنائو ، دفنائو
’’ ہاں ، بچے بھی بلوا لینا ، ختم دِلانا ہے!
’’ میر ا منہ کیا دیکھ رہے ہو !
مجھ کو واپس لندن جانا ہے ‘‘
’’ مجھ کو ایسا لگتا ہے
’’ میری آنکھیں بھی، میری پوروں کی سمت رواں ہیں
میرا بیٹا بھی لندن میں ہے
’’ کیا وہ بھی لندن کی جگ مگ سڑکوں پر
اِک تتلی کے جھلمل رنگوں کے پیچھے
دوڑ رہا ہوگا ؟
’’ کیا اُس جھلمل تتلی کے جھلمل پَر، میرا کفن بن جائیں گے؟
’’ میری آخری خواہش بھی کچھ بے ڈھنگی سی ہے
’’بیٹے کا کاندھا !
’’ میں یہ کن سوچوں میں گھِرا
’’قبرستان کی سمت کھنچا جاتا ہوں؟ سوچتا جاتا ہُوں!
’’باپ کی قبر سے لپٹا بیٹا ، سب کا نصیب کہاں ؟
ہر زندہ در گور کی قسمت،زندہ گورنہیں۔