نوید ملک
ہزاروں بار جو بنتے ہیں مِحور ٹوٹتے ہیں
مرے بستر پہ سارے خواب تھک کر ٹوٹتے ہیں
۔
ٹپکتا ہے کسی تصویر سے جب لمس اُس کا
مری آغوش میں آ کر سمُندر ٹوٹتے ہیں
۔
تمہارے بعد ہاتھوں پر نہیں جچتی یہ گھڑیاں
الجھ کر خود سے اب لمحوں کے یاوَر ٹوٹتے ہیں
۔
ابلتی ہیں تماشوں پر یہاں لوگوں کی آنکھیں
ہمارے اشک بھی سینے کے اندر ٹوٹتے ہیں
۔
کسی کا نام ہونٹوں پر بس اک دن جھلملایا
ستارے تب سے آکر میری چھت پر ٹوٹتے ہیں
۔۔
نوید ملک