شاعر: شبلی نعمانی
اثر کے پیچھے دلِ حزیں نے نشان چھوڑا نہ ہر کہیں کا
گئے ہیں نالے جو سوئے گردوں تو اشک نے رخ کیا زمیں کا
بھلی تھی تقدیر یا بُری تھی یہ راز کس طرح سے عیاں ہو
بتوں کو سجدے کیے ہیں اتنے کہ مٹ گیا سب لکھا جبیں کا
وہی لڑکپن کی شوخیاں ہیں وہ اگلی ہی سی شرارتیں ہیں
سیانے ہوں گے تو ہاں بھی ہو گی ابھی تو سن ہے نہیں نہیں کا
یہ نظمِ آئین ، طرزِ بندش، سخنوری ہے، فسوں گری ہے
کہ ریختہ میں بھی تیرے شبلی مزہ ہے طرز علی حزیں کا